آخر وہ گھڑی آ گئی! راہل گاندھی نے کانگریس صدارت کے لئے پرچہ نامزدگی داخل کر دیا۔ چند دنوں میں وہ ہندوستان کی سب سے پرانی اور جنگ آزادی کی لیڈر پارٹی کے صدر منتخب ہو جائیں گیں۔ لیکن کانگریس وہ کانگریس نہیں رہی جو گاندھی ، نہرو کی کانگریس تھی اور نہ گاندھی خاندان کا وہ دبدبہ رہا جو راجیو گاندھی کے شروعاتی دور تک تھا۔
اکیسویں صدی کا ہندوستان ایک نیا ہندوستان ہے۔ ملک نے پچھلے ستر برسوں میں خود کانگریس کی قیادت میں زبردست ترقی کی ہے۔ مسائل ختم نہیں ہوئے لیکن آج تقریباً ہر نوجوان کم از کم مو ٹر سائیکل پر سوار ہے یا اس کو جلد حاصل کر نے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ہمارے بچپن میں کیا جوانی تک سائیکل بھی کرایہ پر چلتی تھی۔ آزادی سے اب تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے دور میں پہنچ گیا اور یہ سب بی جے پی کا کرشمہ نہیں کانگریس پارٹی کی بصیرت اور گاندھی خاندان کی خدمات کا نتیجہ ہے۔ نریندر مودی کے دور میں تو ملک کی معیشت کی شرح گھٹ کر 5.7 پہنچ گئی۔ لوگوں کو روزگار ملنا تو درکنار روزگار سے جڑے افراد بے روزگار ہو رہے ہیں ۔
لیکن اس زبردست تبدیلی نے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ایک نظریاتی بے چینی پیدا کر دی ہے۔ آج گنگا جمنی تہذیب ایک قصّہ پارینہ ہو گیا ہے۔ سیکولر زم کا لفظ گالی ہے۔ سوشلزم ایک مزاق ہے ۔ سماج میں ایک عجب بےچینی ہے۔ آج کا نوجوان مذہب کی روحانیت سے نہیں اس کے تشخص کا دیوانہ ہے۔ اس کو غیر مذہب کا شخص اپنا دشمن محسوس ہو تاہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی سطح پر اپنے کوغیر محسوس کرتا ہے۔ یعنی ملک میں ایک سماجی بحران ہے۔
پھر کانگریس پارٹی تنظیم کے نام پر مردہ ہے۔ ریاستیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں ۔ مر کز کا اقتدار بھی جاتا رہا۔ سہی یا غلط کانگریس کی ساکھ اب تک ایک بد عنوان جماعت کی ہے۔
ان مشکل حالات میں راہل گاندھی کانگریس کی صدارت قبول کررہے ہیں ۔ ان کے سامنے جو چیلنج ہیں وہ یوں ہیں:
یہ آسان کام نہیں ہیں ۔ لیکن اب راہل نے ارادہ کیا ہے تو ان کو ان مسائل کا حل بھی خود ہی ڈھونڈنا ہو گا۔ راہل گاندھی تاریخ کی اب اس ڈگر پر چل رہے ہیں جہاں محض ان کی پارٹی ہی نہیں بلکہ سارا لبرل ہندوستان امید سے ان کو دیکھ رہا ہے۔ دیکھیں وہ ان امیدوں پر کتنے کھرے اتر تے ہیں!۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined