نئی دہلی: دہلی کی کیجریوال حکومت نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے دہلی حکومت کی سولر پالیسی پر پابندی لگا دی ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ وہی سولر پالیسی ہے، جس کا اعلان سی ایم اروند کیجریوال نے کچھ دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔
Published: undefined
دہلی کی عام آدمی پارٹی (اے اے پی) حکومت سے وابستہ ذرائع نے دعویٰ کیا، 'ایل جی نے دہلی حکومت کی سولر پالیسی کو روک دیا ہے۔ اس اسکیم کا اعلان سی ایم کیجریوال نے کچھ دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ دہلی حکومت کا منصوبہ تھا کہ سولر پالیسی کے ذریعے دہلی کے لوگوں کے بجلی کے بل صفر ہو جائیں گے۔
Published: undefined
دراصل، دہلی حکومت نے نئی سولر انرجی پالیسی 2024 جاری کی تھی۔ سی ایم کیجریوال نے کہا تھا کہ اس پالیسی کے تحت جو لوگ اپنی چھتوں پر سولر پینل لگائیں گے، ان کا بجلی کا بل صفر ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس کے ذریعے لوگ ہر ماہ 700 روپے تک کما سکتے ہیں۔ سی ایم نے کہا تھا کہ دہلی میں اب تک 2016 کی پالیسی نافذ تھی۔ یہ ملک کی سب سے ترقی پسند پالیسی تھی۔ اس پالیسی نے دہلی میں شمسی توانائی کی بنیاد ڈالی۔ سی ایم کیجریوال نے کہا تھا کہ اس پالیسی کے تحت جو لوگ سولر پینل خریدنے میں پیسہ لگاتے ہیں، وہ رقم چار سال کے اندر وصول کر لی جائے گی۔ حکومت نے اس پالیسی کے تحت بہت سی سبسڈی کا بھی انتظام کیا تھا۔
Published: undefined
سی ایم کیجریوال نے کہا تھا کہ نئی سولر پالیسی کے بارے میں تمام معلومات ایک جگہ پر فراہم کرنے کے لیے ایک سولر پورٹل بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر کسی سرکاری عمارت کی چھت پر 500 مربع میٹر کا رقبہ ہے تو ان کے لیے سولر پینل لگانا لازمی ہوگا۔ اگلے 3 سالوں میں اس علاقے کی تمام سرکاری عمارتوں پر سولر پینل نصب کر دیے جائیں گے۔
Published: undefined
دہلی حکومت کی نئی سولر پالیسی کے تحت بجلی کی پیداوار بڑھانے کا ہدف تھا۔ مارچ 2027 تک دہلی کی کل نصب شمسی صلاحیت کو 3 گنا بڑھا کر 4500 میگاواٹ کرنا ہے۔ اس وقت شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت 1500 میگاواٹ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ سال 2027 تک دہلی کی بجلی کی کھپت کا تقریباً 20 فیصد شمسی توانائی سے آئے گا۔ اس کے علاوہ اس پالیسی کے تحت غیر سبسڈی والے رہائشی صارفین کے بجلی کے بل کو صفر اور کمرشل یا صنعتی صارفین کے بجلی کے بل کو 50 فیصد تک کم کرنے کا ہدف ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز