صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے ہاتھوں گزشتہ روز 119 لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان میں 7 پدم وبھوشن، 10 پدم بھوشن اور 102 پدم شری شامل ہیں۔ ان 119 لوگوں میں 9 مسلم شخصیات ایسی ہیں جنھیں پدم ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ مولانا وحید الدین خان کو پدم وبھوشن، مولانا کلب صادق کو پدم بھوشن، اور بقیہ 7 یعنی گلفام احمد، غلام رسول خان، لاکھا خان، سنجیدہ خاتون، علی منکفان، عمران شاہ و کرنل قاضی سجاد علی ظہیر کو پدم شری ملا۔ آئیے ہم آپ کا ان 9 شخصیتوں سے مختصر تعارف کراتے ہیں...
Published: undefined
مشہور و معروف عالم دین اور امن کے پیغامبر مولانا وحیدالدین خان کی پیدائش اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں 1925 میں ہوئی۔ انھوں نے ایک ایسے دور میں امن کا پیغام پوری دنیا میں عام کیا جب تعصب اور نفرت کا زہر فضا میں تیزی کے ساتھ پھیلتا دیکھا گیا۔ 96 سال کی عمر میں جب انھوں نے 21 اپریل 2021 کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا، تو ان کے ناقدین بھی غم میں ڈوب گئے۔ کووڈ-19 کی تشخیص کے بعد مولانا وحیدالدین خان کو 12 اپریل کو دہلی واقع اپولو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، لیکن وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ان کی وفات پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’’انھیں الہیات اور روحانیت کے معاملات پر بصیرت سے بھرپور علم کے لیے یاد کیا جائے گا۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ مولانا وحید الدین خان اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تقریباً 200 کتابوں کے مصنف تھے اور انھوں نے قرآن کا ترجمہ بھی کیا۔ ان کے نظریاتی اور سیاسی خیالات سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی علمی فضیلت کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
Published: undefined
معروف اسلامی اسکالر اور شیعہ عالم دین مولانا سید کلب صادق کی پیدائش 22 جون 1939 کو لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ 83 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد وہ 24 نومبر 2020 کو انتقال کر گئے۔ مولانا کلب صادق پوری دنیا میں تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں و یتیم بچوں کی تعلیم کے لئے ہمیشہ سرگرم رہے۔ وہ یونٹی کالج اور ایرا میڈیکل کالج کے بانی بھی تھے۔ تعلیم کے شعبہ میں تو انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دیا ہی، ساتھ ہی شیعہ-سنی اتحاد پر بھی مولانا کلب صادق نے بہت کام کیا۔ وہ ایسے پہلے مولانا تھے جنھوں نے شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کو ایک ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب دی اور ان کی امامت بھی کی۔
Published: undefined
66 سالہ گلفام احمد بنیادی طور پر اتر پردیش کے باشندہ ہیں اور 2001 سے رباب کے ساتھ ساتھ سرود بھی بجا رہے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے تقریباً 5 سال افغانستان میں گزارا جہاں بچوں کو رباب اور سرود کی تعلیم دی۔ انھوں نے ایک نیوز ایجنسی سے بات چیت کے دوران بتایا کہ کئی نسل پہلے ان کا کنبہ افغانستان سے آ کر ہندوستان میں بس گیا تھا، اور پھر وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ گلفام احمد نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نے افغانی بچوں کو رباب سکھانے کے لیے افغانستان بھیجا تھا اس لیے کئی سال وہاں رہنا ہوا۔ گلفام احمد کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے لباس سے بے انتہا لگاؤ رکھتے ہیں۔ وہ کرتے کے اوپر ایک افغانی صدری اور ٹوپی پہنتے ہیں۔ گلفام کہتے ہیں کہ ’’میرے آبا و اجداد افغانستان سے آئے تھے، اس لیے میں اپنا لباس بھی اسی طرح رکھتا ہوں۔ میں رباب بجانے کے دوران بھی یہی لباس پہنا کرتا ہوں۔‘‘
Published: undefined
غلام رسول خان کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے۔ وہ مشہور کشمیری پشمینہ شال کے لیے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج اپنی نرمی اور مضبوطی کے لیے پوری دنیا میں مشہور کشمیری پشمینہ شال کے ذریعہ لوگ روزی روٹی بھی کما رہے ہیں اور مقبولیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔ غلام رسول خان کا بچپن پشمینہ شال کے آس پاس ہی گزرا ہے، اس لیے ان کے اندر ایک ایسا فن پیدا ہو گیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ غلام رسول خان کا کہنا ہے کہ ’’میں ابھی تک 500 لوگوں کو اس فن سے متعارف کرا چکا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اب وہ اس کام میں ماہر ہو گئے ہیں اور اپنی روزی کما رہے ہیں۔‘‘ اب وہ مرکزی حکومت سے گزارش کر رہے ہیں کہ دہلی میں ایک آرٹ امپوریم بنایا جائے تاکہ مختلف فن کے نمونوں کو ایک اسٹیج پر رکھا جا سکے۔ غلام رسول کہتے ہیں کہ ’’دہلی میں بھی ہمارے کاریگروں کے لیے ایسا اسٹیج ہونا چاہیے جہاں وقت وقت پر دستکاری کی نمائش لگا سکیں۔‘‘
Published: undefined
لاکھا خان کا تعلق راجستھان سے ہے، اور وہ ملک کے واحد پیالہ دار سندھی سارنگی بجانے والے فنکار ہیں۔ وہ کئی زبانوں میں گانے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ 71 سالہ لاکھا خان کو موسیقی کے شعبہ میں اہم کردار نبھانے کے لیے ہی پدم شری جیسا اعزاز ملا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ صدر جمہوریہ کے ہاتھوں اعزاز ملنا میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔ مجھے فی الحال ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ میں ایک سمندر میں تیر رہا ہوں۔‘‘ لاکھا خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے 8 سال کی عمر سے ہی گانا شروع کر دیا تھا اور پھر 12 سال کی عمر میں والد نے سارنگی بجانا سکھانا شروع کر دیا۔ 16 سال کی عمر تک لاکھا خان سارنگی بجانا بہت اچھی طرح سیکھ گئے۔ لاکھا خان ملتانی، سندھی، پنجابی، ہندی اور مارواڑی زبان میں اچھی گرفت رکھتے ہیں اور ان زبانوں میں کئی لوک گیت گا چکے ہیں۔
Published: undefined
سنجیدہ خاتون کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ ان کی پیدائش 4 اپریل 1933 کو ہوئی اور بنگلہ ادب میں انھوں نے گریجویشن کی ڈگری 1955 میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ انھوں نے 1957 میں وشو بھارتی یونیورسٹی سے بنگلہ زبان میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ موسیقی کی دنیا میں ایک بہت بڑا نام ہیں اور چھایانوت انسٹی ٹیوٹ کی بانی بھی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، 1971 میں جب ’لبریشن وار‘ ہوا تھا تو اس وقت بنگلہ دیش مکتی سنگرام شلپی سنستھا کی جن لوگوں نے بنیاد رکھی تھی، ان میں سنجیدہ خاتون کا بھی نام شامل ہے۔ سنجیدہ خاتون کو ان کے قابل قدر کارناموں کی وجہ سے رابندرا ایوارڈ 2010، بنگلہ اکیڈمی لٹریری ایوارڈ 1998، ایکوشے میڈل 1991 اور کوی جسیم الدین ایوارڈ وغیرہ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔
Published: undefined
لکشدیپ سے تعلق رکھنے والے علی منکفان کا پورا نام مرادگندوار علی منکفان ہے۔ ان کی پیدائش 16 مارچ 1938 کو منکوئے جزیرہ میں ہوئی تھی۔ علی منکفان کو علی بیفانو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے مشہور سمندری محقق، کشتی ساز اور ماہر ماحولیات ہیں۔ وہ سمندر، فضا اور زراعت کے شعبہ میں آٹوڈیڈیکٹک تحقیقی مہارت کے لیے مقبول ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جب وہ بحری سائنسداں ڈاکٹر سنتھپن جونس کے ساتھ کام کر رہے تھے تو مچھلی کی ایک نئی نسل کے بارے میں پتہ لگایا تھا۔ ڈاکٹر جونس علی منکفان کی صلاحیت اور مہارت کے اتنے قائل ہوئے کہ مچھلی کی اس نئی نسل کا نام ابودفدف منکفانی رکھ دیا۔
Published: undefined
ہندوستانی ریاست آسام کے شیوساگر میں عمران شاہ کی پیدائش 23 نومبر 1933 کو ہوئی تھی۔ ان کا پورا نام نواب عمران شاہ ہے اور وہ آسامی زبان کے مشہور ادیب ہیں۔ ان کے نام سے کئی نظمیں، ناول اور دیگر تحریریں شائع ہوئی ہیں۔ میڈیا ذرائع کے مطابق عمران شاہ نے ایشان دتہ، انامیکا بروا، کمبھ کرن اور انمیش بروا کے نام سے بھی اپنی تحریریں شائع کیں۔ عمران شاہ کے والد کا نام محمد شاہ اور والدہ کا نام مریم النساء ہے۔ انھوں نے آسام میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ادب کے ساتھ ساتھ ایجوکیشن کے شعبہ میں قابل قدر کارنامہ انجام دیا۔
Published: undefined
11 اپریل 1951 کو پاکستان کے کومیلا ضلع واقع داؤدکانڈی اپازلا کے چوسی میں پیدا ہوئے کرنل قاضی سجاد علی ظہیر کو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں اہم کردار نبھانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ کرنل ظہیر نے 1969 کے آخر میں پاکستانی فوج جوائن کیا تھا اور پاکستان میں کاکل ملٹری اکیڈمی میں سینئر کیڈٹ کے طور پر ٹریننگ حاصل کی۔ وہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا حصہ ستمبر 1971 میں بنے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے تعلق سے انھوں نے کچھ اہم کاغذات ہندوستان کو دیے تھے۔ بعد ازاں جب بنگلہ دیش ایک علیحدہ ملک بنا تو پاکستان نے کرنل قاضی سجاد علی ظہیر کی تلاش شروع کی۔ تقریباً 50 سال ہو گئے اور پاکستان ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکا، لیکن ہندوستان میں انھوں نے انتہائی شان کے ساتھ پدم شری اعزاز حاصل کیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز