میرٹھ کوتوالی کے ٹھیک سامنے اسماعیل گرلس کالج ہے۔ 59 سالہ نسیم احمد اس میں چوکیدار ہیں جن کی یہاں تعیناتی 1988 میں ہوئی تھی۔ ان کی فیملی پانچ بچوں پر مشتمل ہے جس میں تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ سبھی اچھی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ پوری زندگی ان کی فیملی نے ایک کمرے میں گزاری ہے۔ اپنی زندگی کی مکمل کمائی اور بینک سے لیے گئے 18 لاکھ قرض کے بعد نسیم احمد نے گھر خریدا تھا لیکن ان کے خوابوں کا یہ گھر اب شرپسندوں نے چھین لیا ہے۔ مایوس چہرے کے ساتھ دروازے کے پاس کھڑے نسیم اپنے انجینئر بیٹے نعمان کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں جو کہ قرض دار بھی ہو گیا ہے اور گھر بھی اسے نہیں مل سکا ہے۔
اس فیملی کے درد کو ہر کسی کے لیے محسوس کر پانا مشکل ہے۔ نسیم احمد نم آنکھوں کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’پوری زندگی ایک کمرے میں کاٹ دی اور اب اپنے گھر میں مرنا چاہتا ہوں۔ یہ خواب بیٹے نے سچ کر دیا تھا لیکن نفرت کے سوداگروں نے نیند چھین لی۔‘‘ نسیم کے دوسرے بیٹے عثمان (20 سال) اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ’’ہم جب چھوٹے تھے تو اسی کالج میں سوہن لال شرما انکل کی بھی ملازمت تھی۔ ان کو بغل والا کمرہ ملا ہوا تھا۔ ان کی اور میری فیملی ایک ایک کمرے میں اپنی اپنی فیملی کے ساتھ گزارہ کرتے تھے اور دونوں فیملی کے لیے بیت الخلاء اور باورچی خانہ ایک ہی تھا۔ ہم سب مل جل کر رہتے تھے، لیکن اب ہمیں ہندو محلے میں گھر خریدنے کی سزا مل رہی ہے۔‘‘
Published: 21 Dec 2017, 8:59 PM IST
نسیم احمد کے بیٹے نعمان علی کے نام ہوئے بیع نامے کی تصویر
دراصل نسیم احمد کا بڑا بیٹا نعمان اس وقت سافٹ ویئر انجینئر بن چکا ہے اور دہلی میں مقیم ہے۔ ایک ذمہ دار بیٹا کا فرض نبھاتے ہوئے اس نے 30 لاکھ روپے خرچ کر کے 125 گز زمین خریدی جس کے لیے 18 لاکھ روپے بینک سے قرض بھی لینے پڑے۔ شرپسند عناصر کی غنڈہ گردی سے اب یہ پورا پیسہ ڈوبتا ہوا معلوم پڑ رہا ہے۔ نسیم احمد کے پڑوسی اختر خان نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہر طرح کی خانہ پری مکمل ہونے کے بعد سنجے رستوگی نعمان کی فیملی کو قبضہ دینے آئے۔ نعمان کے گھر میں مٹھائی منگوا لی گئی، لیکن اسی وقت تقریباً ڈیڑھ سو لوگ اکٹھا ہوئے اور ’جے شری رام‘ کے ساتھ ساتھ ’ہر ہر مہادیو‘ کا نعرہ لگانے لگے۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’جمع ہوئے سبھی لوگ گھر نعمان کے ہاتھوں فروخت کیے جانے کی مخالفت کرنے لگے اور کہا کہ ہم مسلمان کو یہاں بسنے نہیں دیں گے۔‘‘ اختر خان نے معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پورا معاملہ جب پولس کے پاس پہنچا تو وہاں سنجے رستوگی کی آنکھیں نم ہو گئیں اور میرا بھی کلیجہ منھ کو آ گیا۔ سنجے اچھا آدمی ہے، اس نے کہا کہ میں نے اپنی دکان فروخت کر دی، کار فروخت کر دی اور پشتینی مکان فروخت کر دیا کیونکہ مجھے تجارت میں نقصان ہوا تھا جس کا قرض ادا کرنا تھا، یہ لوگ ہندوتوا کے اتنے بڑے ٹھیکیدار ہیں تو میری مدد کیوں نہیں کرتے۔‘‘
نسیم احمد نے ’قومی آواز‘ کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ تین مہینے سے لگاتار مکان میں ہمارا آنا جانا تھا۔ ہم نے مکان پر قرض بھی لیا۔ بینک کے ملازمین بھی ہمارے ساتھ آتے تھے، اس وقت اعتراض کیوں نہیں کیا گیا۔ دراصل گزشتہ دو مہینے سے ایک نئے لفظ ’لینڈ جہاد‘ کا ایجاد ہوا ہے جس کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔‘‘ لینڈ جہاد کے بارے میں مقامی باشندہ وسیم منصوری کہتے ہیں کہ ’’22 نومبر کو صحافت کا ایک طالب علم مانو تیاگی دہلی ریلوے اسٹیشن پر دیکھتا ہے کہ وہاں نماز پڑھنے کے لیے چارپائی کے برابر جگہ کو صاف کیا گیا ہے جس میں گھیرا بنا کر رسّی لگائی گئی ہے۔ مانو تیاگی نے اس جگہ کو مسجد بتا کر سوشل سائٹ پر پوسٹ کر دیا جس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا۔ دراصل سچائی یہ ہے کہ اس گھیرے ہوئے مقام پر اسٹیشن پر ہمہ وقت موجود رہنے والے قلی نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’مانو تیاگی کے پوسٹ کو دیکھ کر نماز ختم ہونے کے فوراً بعد کچھ ہی منٹوں میں وزارت ریل کے مقامی افسران نے رسّی کو ہٹا کر اس جگہ صفائی کر دی اور نئی تصویر پوسٹ کر دیا۔ اس کے بعد ایک شدت پسند گروپ نے یہ بات تشہیر کر دی کہ مسلمانوں نے ریلوے اسٹیشن پر مسجد بنا کر ’لینڈ جہاد‘ کیا تھا جسے ہٹوا دیا گیا ہے۔‘‘
Published: 21 Dec 2017, 8:59 PM IST
اسماعیل گرلس نیشنل انٹر کالج، میرٹھ کا صدر دروازہ جہاں نسیم احمد 29 سال سے کام کر رہے ہیں
عبدالغفار نامی شخص نے ’لینڈ جہاد‘کے بارے میں بتایا کہ نومبر سے پہلے یہ لفظ کبھی نہیں سنا گیا تھا مگر میرٹھ کے تازہ معاملہ کے بعد یہ مشہور ہو گیا۔ وی ایچ پی سے منسلک دیپک ورما نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’مسلمانوں نے مزاروں اور پیر کے نام پر بہت زیادہ زمینیں قبضہ کر رکھی ہیں۔ یہ کھربوں کی ملکیت ہے جنھیں آزاد کرانا لینڈ جہاد ہے۔‘‘ میرٹھ کے محمد آزاد ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’راجستھان میں لو جہاد کی دہشت ناک شکل دنیا دیکھ چکی ہے اور اب یہ شر پسند عناصر ’لینڈ جہاد‘ لے کر آئے ہیں۔ ان شدت پسندوں کے ایشوز اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک کہ اس ملک سے مسلمان ختم نہیں ہو جاتے۔‘‘
بہر حال، نسیم احمد اور نعمان علی کے خوابوں کا گھر اس وقت شدت پسندوں کے قبضے میں ہے۔ اس سلسلے میں مقامی باشندہ آفتاب احمد کا کہنا ہے کہ ’’نعمان علی کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے ہندو اکثریت والے علاقے موریپاڑا میں گھر خریدا جسے سنار سنجیو رستوگی نے فروخت کیا تھا۔ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں مطمئن تھے لیکن ہندو تنظیموں سے منسلک لوگوں کو ناگوار محسوس ہو رہا تھا۔‘‘ آفتاب احمد نے مزید بتایا کہ ’’وی ایچ پی سے منسلک ایک مذہبی لیڈر سدرشن چکر مہاراج کو اس خرید و فروخت پر سخت اعتراض ظاہر ہوا۔ کئی لوگوں کا ایک گروپ سنجیو رستوگی کے گھر پہنچ گیا اور ان پر مکان واپس لینے کا دباؤ ڈالنے لگا۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ خریدار نعمان علی کو کوتوالی طلب کر لیا گیا۔‘‘
Published: 21 Dec 2017, 8:59 PM IST
ایک کمرے کا وہ گھر جہاں نسیم احمد اور ان کی فیملی نے 29 سال گزارے ہیں
انسپکٹر یشویر سنگھ سے جب اس سلسلے میں بات چیت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ نعمان علی سمجھدار آدمی ہے، وہ مکان واپس کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ یشویر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’لوگوں نے اس پورے معاملے کو غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہاں دونوں فرقہ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں، ہمیں کسی طرح کی کشیدگی کی خبر نہیں ہے۔‘‘
نعمان علی کو گھر دلوانے میں ثالث کا کردار نبھانے والے کانگریس سے منسلک بابا گوسوامی نے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’’بی جے پی کے لوگ بے وجہ کا تنازعہ پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے پڑوسی سابق کونسلر موہت رستوگی نے خود اپنا گھر مسلمان کو فروخت کیا، اس وقت ’لینڈ جہاد‘ کہاں تھا۔‘‘ انھوں نے مزید سوال اٹھایا کہ ’’مشہور پروپرٹی ایجنٹ پی رستوگی نے حال ہی میں تین گھر مسلمانوں کو دلوائے ہیں جن کے ہندو مالک تھے، یعنی بی جے پی خود تو بزنس کر رہے ہیں اور دوسروں کے بزنس میں مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔‘‘
بہر حال، لو جہاد کے بعد اب لینڈ جہاد نے علاقے میں دہشت کا ماحول تو پیدا کر ہی دیا ہے۔ بھلے ہی ایک ہی جگہ مقیم ہندو اور مسلمان بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے ہوں لیکن وی ایچ پی اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے کارکنان کو یہ قطعی پسند نہیں ہے۔ اسی لیے تو وی ایچ پی کے اشوک کمار بلا خوف و خطر کہتے ہیں کہ ’’ہم ہندوؤں کی کوئی پراپرٹی مسلمانوں کو خریدنے نہیں دیں گے اور جہاں جہاں غیر قانونی قبضے کر کے مزار بنائے گئے ہیں اس کو ہٹانے کے لیے مہم چلائیں گے۔‘‘
Published: 21 Dec 2017, 8:59 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Dec 2017, 8:59 PM IST
تصویر: پریس ریلیز