چنئی: مئی 2018 میں توتیکورن میں اینٹی اسٹرلائٹ مظاہرہ کے دوران پولیس کی فائرنگ میں 13 افراد کی موت کے حوالہ سے مدراس ہائی کورٹ نے بے حد سخت تبصرہ کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا، ’’کیا ہم لوگوں کو مار کر، ان کو معاضہ دے کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا کام پورا ہو گیا؟ کیا ہم ایسا سماج بنانا چاہتے ہیں؟‘‘
Published: undefined
یہ تبصرہ مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ کے چیف جسٹس سنجیب بنرجی نے ہینری ٹیفاگن کی عرضی سماعت کے دوران کیا۔ بنچ دوسرے جج جسٹس ٹی ایس شیو گنم نے نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن سے اس معاملہ پر رپورٹ طلب کی تھی۔ چیف جسٹس نے ویدانتا کاپ سمیلٹر پلانٹ بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پر تشدد احتجاج میں مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کو دئے جانے والے معاوضہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’کیا متاثرین کو محض پیرے دے کر معاملہ کو رفع دفع کرنا ممکن ہے۔‘‘
Published: undefined
چیف جسٹس بنرجی نے مزید کہا، ’’یہ تشویش ناک بات ہے کہ ریاست اپنی پولیس کے ذریعے نہتے مظاہرین پر گولیاں برسا رہی ہے اور تین سال بعد بھی کسی کے خلاف معاملہ تک درج نہیں کیا گیا ہے۔ آئینی اصولوں پر چلنے والے سماج کے لئے یہ اچھا نہیں ہے کہ ہم متاثرین کے اہل خانہ کو معاوضہ دے دیں اور پولیس کی کارروائی اور اس کے ممکنہ ظلم کو نظر انداز کر دیں۔‘‘
Published: undefined
حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا، ’’حقائق سامنے آنے سے پہلے ابھی کسی نتیجہ پر پہنچنا صحیح نہیں ہوگا لیکن یہ ضروری ہے کہ حقیقت سامنے آئے اور اسے عوامی کیا جائے۔‘‘ پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے لوگوں کا یہ مقدمہ بند کر دیا گیا تاھ، جس کے بعد ایک این جی او پیپلز واچ کے ڈائریٹر ہینری ٹیفاگن نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز