ساحر لدھیانوی ہندوستان کے وہ شاعر ہیں، جنہیں کسی خاص دور سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اشعار آج کے دور کے لئے ہی ہیں۔ ساحر جب یہ کہتے ہیں ’ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘، تو اس میں محبت، غربت اور شہنشاہیت کے تمام پہلو نظر آتے ہیں۔
Published: undefined
ساحر کی خاص بات یہ تھی کہ جب وہ مسائل اٹھاتے ہیں اور جس انداز سے اٹھاتے تھے وہ لوگوں میں ایک روح پھونک دیتے ہیں۔ وہ جب کہتے ہیں کہ ’خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا‘ تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے ’سازشیں خوب اڑاتی رہیں ظلمت کے نقاب، لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پے چراغ‘۔
Published: undefined
ساحر لدھیانوی کی نظم ’خون پھر خون ہے‘ بہترین نظموں میں سے ایک ہے جو آج بھی موزوں ہے۔ ساحر کا ایک ایک لفظ آج کے دور میں سچا ثابت ہوتا ہے۔ کب انہوں نے یہ نظم کہی تھی اور آج بھی اس کے وہی معنی ثابت ہو رہے ہیں جو انہوں نے اس وقت کہی تھی۔
Published: undefined
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined