کانگریس نے یو پی ایس سی چیئرپرسن منوج سونی کے استعفیٰ کے بعد ہفتہ کے روز دعویٰ کیا کہ ایسے کئی لوگ ہیں جنھوں نے نظام کو آلودہ کیا ہے۔ پارٹی صدر ملکارجن کھڑگے نے تو مرکز کی مودی حکومت سے یہ سوال پوچھ لیا ہے کہ سونی کے استعفیٰ کو ایک ماہ تک راز میں کیوں رکھا گیا اور کیا اتنے سارے گھوٹالوں اور استعفیٰ کے درمیان کوئی رشتہ ہے؟ علاوہ ازیں پارٹی جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوال کیا ہے کہ قومی ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے سربراہ پردیپ کمار جوشی کیوں بچے ہوئے ہیں؟ انھوں نے مزید کہا کہ یہ واضح طور پر لگ رہا تھا کہ یو پی ایس سی کے موجودہ تنازعہ کو دیکھتے ہوئے سونی کو باہر کیا جائے گا۔
Published: undefined
کانگریس صدر کھڑگے نے اس معاملے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تذکرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’’بی جے پی-آر ایس ایس منظم طور پر ہندوستان کے آئینی اداروں پر ادارہ جاتی قبضہ کرنے میں مصروف ہیں، جس سے ان اداروں کا وقار، شفافیت اور خود مختاری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ یو پی ایس سی کو پریشان کرنے والے کئی گھوٹالے قومی فکر کا سبب ہیں۔
Published: undefined
کھڑگے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے پرسونل، لوک شکایت اور وزیر برائے پنشن کو صفائی دینی ہوگی۔ نااہل اشخاص کے ذریعہ فرضی ذات سرٹیفکیٹ بنانے کے کئی معاملوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ’فل پروف‘ سسٹم کو دھوکہ دیا ہے۔ کانگریس صدر نے دعویٰ کیا کہ یہ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، ای ڈبلیو ایس امیدواروں سمیت لاکھوں امیدواروں کی حقیقی امیدوں کی براہ راست بے حرمتی ہے، جو سول سروس امتحانات کی تیاری میں سخت محنت کرتے ہیں اور نصف رات کو پسینہ بہاتے ہیں۔
Published: undefined
کانگریس صدر نے کہا کہ یہ پریشان کرنی والی بات ہے کہ کس طرح یو پی ایس سی چیئرپرسن نے اپنی مدت کار ختم ہونے سے 5 سال پہلے ہی استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ ’’ان کا استعفیٰ ایک ماہ تک راز میں کیوں رکھا گیا؟ کیا اتنے سارے گھوٹالوں اور استعفیٰ کے درمیان کوئی رشتہ ہے؟ کھڑگے نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم کے پسندیدہ شخص کو گجرات سے لایا گیا اور پروموشن دے کر یو پی ایس سی چیئرپرسن بنایا گیا۔ اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر گہرائی سے جانچ کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں یو پی ایس سی میں دھوکہ دہی کے ایسے معاملے نہ ہوں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined