کیرالہ کا رہائشی ریاض احمد ایک ایسا نوجوان ہے جس پر اسی کی بیوی نے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات عائد کئے۔ بعد ازاں این آئی اے نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے جیل میں ڈال دیا۔ بے شمار پریشانیوں کا سامنا کرنے اور جدوجہد کے بعد اب ریاض سنگین الزامات سے تو بری ہو گیا ہے لیکن اس نے جن تکالیف کا سامنا کیا نہ تو ان کا مداوا ہو سکے گا اور نہ ہی اب وہ سماج میں پہلے والی عزت حاصل کر سکے گا۔
دراصل ہندوستان میں ہندو اور مسلم لڑکے یا لڑکی کا آپس میں شادی کر لینا کوئی عجیب بات نہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب الگ الگ مذاہب کے لوگ آپس میں شادی کرتے ہیں، مذہب تبدیل کر لیتے ہیں یا پھر نہیں بھی کرتے ۔ لیکن جب سے مرکز میں مودی کی قیادت والی این ڈی حکومت بر سر اقتدار آئی تبھی سے ’لو جہاد ‘ کا ایسا حوا کھڑا کیا گیا کہ ہندو لڑکی سے شادی کرنے والے ہر مسلمان نوجوان کو زد و کوب کرنے کی کوشش کی گئی اور اس پر جھوٹے الزامات عائد کر کے جیل تک میں ڈال دیا گیا۔ اس دوران جانچ ایجنسیوں کا کردار بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ رہا، جنہوں نے میاں بیوی کے معمولی جھگڑے یا پھر لڑکی کے خاندان کی شکایت پر نوجوانوں پر سنگین الزامات عائد کر دیے۔ حالانکہ جب غیر جانبدارانہ طریقہ سے تفتیش کی گئی تو وہ نوجوان بے قصور ثابت ہوئے۔ ریاض احمد بھی ایسے ہی نوجوانوں میں سے ایک ہے۔
سعودی عرب میں اچھی ملازمت کرنے والے کیرالہ کے رہائشی نوجوان ریاض احمد کی زندگی میں فروری 2018 کے دورا اچانک ایک طوفان آ گیا تھا۔ انہیں سعودی عرب میں ان کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، ان کے خاندان نے ان سے ناطہ توڑ لیا اور این آئی اے نے ان کو 76 دنوں تک تحویل میں رکھا۔ دراصل ریاض کی ہندو بیوی نے الزام عائد کیا تھا کہ ریاض نے دباؤ ڈال کر پہلے اس کا مذہب تبدیل کرایا اور بعد میں اسے آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ ) کو ’جنسی غلام ‘ (سیکس سلیو)کے طور پر فروخت کرنا چاہتا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق انسداد غیر قانونی سرگرمی قانون (ان لا فل ایکٹیوٹیز پریونشن ایکٹ، یو اے پی اے) کے تحت گرفتار 27 سالہ ریاض کو گزشتہ ہفتہ دہشت گردی کے الزامات سے بری کر دیا گیا اور ان کا معاملہ کیرالہ پولس کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایرناکولم پولس کے ایک افسر کا اس تعلق سے کہنا ہے کہ ’’ریاض پر آئی ایس سے تعلقات ثابت نہیں ہو سکے ، لہذا این آئی اے نے یو اے پی اے کے تحت جو الزامات عائد کئے تھے ان سے اسے بری کر دیا ہے۔ اب ہم مبینہ جرم کی تحقیقات آئی پی سی کی دفعہ 498 (اے) کے تحت کریں گے۔ ‘‘ واضح رہے کہ آئی پی سی کی دفعہ 498 (اے) شوہر کی طرف سے اپنی بیوی کو ہراساں کرنے سے متعلق ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ریاض احمد کو سنگین الزامات سے بری کئے جانے کے بعد اس کے سر پر جو تلوار لٹکی ہوئی تھی وہ تو اب ہٹ گئی ہے لیکن آئی ایس کے جھوٹے الزام نے اس کی زندگی ہمیشہ کے لئے برباد کر دی ہے۔ ریاض اپنے ساتھ ہوئے ظلم کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’میری گرفتاری کے ساتھ ہی سعودی عرب کی میری منیجر کی ملازمت ہاتھوں سے چلی گئی۔ آئی ایس سے تعلقات کے جو الزامات مجھ پر مسلط کئے گئے ان کی وجہ سے میرے قریبی خاندانی افراد نے مجھ سے تعلقات منقطع کر لئے۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ دوسرے مذہب کی عورت سے محبت کی شادی کرنا مجھے اتنا بھاری پڑے گا۔ میں تو سعودی عرب سے لوگوں کو یہ بتانے کے لئے آیا تھا کہ میں بے قصور ہوں لیکن این آئی اے نے مجھے گرفتار کر جیل میں ڈال دیا۔‘‘
Published: undefined
ریاض کو این آئی اے نے کنور کے ’نیو ماہے ‘ سے 3 فروری 2018 کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ سعودی عرب سے یہاں پہنچا تھا۔ ریاض کی نو مسلم بیوی نے مقامی پولس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ اس کا شوہر اسے شام میں آئی ایس کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتا ہے، اس کے بعد این آئی اے نے اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
قابل ذکر ہے کہ ریاض اور ہندو عورت کی محبت کی کہانی 2013 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب دونوں بنگلورو میں ایک ہی انسٹی ٹیوٹ میں زیر تعلیم تھے۔ دونوں نے اپنے خاندانوں کی مرضی کے خلاف شادی کر لی اور بعد میں ریاض کی ہندو بیوی نے اسلام مذہب اختیار کر لیا۔ ریاض کی بیوی گجرات کی رہنے والی تھی اور شادی کے تین مہینے بعد اس کے والد نے اسے کال کر کے کہا کہ اس کی ماں باتھ روم میں گر گئی ہے اور اسے اپنی بیٹی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد وہ گجرات چلی گئی تھی۔
دریں اثنا ریاض نے کیرالہ ہائی کورٹ میں ہیبیس کورپس (تحویل شدہ کو حاضر کرنے کی )عرضی داخل کر کے کہا کہ اس کی بیوی کو اس کے والدین نے تحویل میں لے رکھا ہے۔ بیوی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے 15 اکتوبر 2016 کو اپنی خوشی سے ریاض سے شادی کی تھی اور عدالت نے ان دونوں کو ساتھ رہنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی جدہ چلے گئے، لیکن بیوی کو گجرات سے پھر کال پہنچی کہ اس کے والد بیمار ہیں اس لئے اسے فوراً آ جانا چاہئے۔ ریاض نے اس وقت بتایا کہ ’’یہ سچ ہے کہ اس کے والد بیمار تھے ۔ میں نے اسے واپس آنے کی تاکید کی کیونکہ جدہ سے اسے لانے کے لیے جانے پر اس کی جاب چلے جانے کا خطرہ تھا۔ میں نے اسے جانے سے نہیں روکا بلکہ خود ایئر پورٹ تک چھوڑنے کے لئے پہنچا۔‘‘
یہ پورا معاملہ اس وقت بگڑا جب نومبر 2017 کو ریاض کی بیوی نے کیرالہ ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے کہا کہ اس کے شوہر نے اسے جبراً مسلمان بنایا ہے اور اب شام میں آئی ایس کو جنسی غلام کے طور پر فروخت کرنا چاہتا ہے۔ ریاض کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اسے اے ٹی ایم کارڈ اور موبائل فون دیا۔ جب وہ جہاز پر سوار ہو گئی تو میں نے میسیج کے ذریعے اسے اپنے کزن کو بورڈنگ پاس کی کاپی بھیجی۔ اس کی فیملی یہ دعوی کس طرح کر سکتی ہے کہ وہ میری تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب رہی اور میں اسے جنسی غلام کے طور پر فروخت کرنا چاہتا ہوں؟ جب اس نے واپس آنے پر زور ڈالا تو میں نے اس کے لئے تمام انتظامات کئے۔‘‘
جب معاملہ این آئی اے کے سپرد کر دیا گیا تو ریاض نے بغیر کوئی قانونی صلاح لئے کوچی کے افسران سے پیش ہونے کے ارادے سے رابطہ قائم کیا۔ریاض کا کہنا ہے کہ ’’مجھے پورا یقین تھا کہ میں افسران کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب رہوں گا، لیکن میں اس وقت جیل میں تھا اور ہائی کورٹ سے مجھے 76 دنوں کے بعد ضمانت مل سکی۔‘‘
ریاض کا کہنا یہ بھی ہے کہ آئی ایس سے مبینہ تعلقات کے الزامات کی وجہ سے اس کی نوکری چلی گئی۔ ریاض کے مطابق ’’ہر کوئی مجھے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لوگ مجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتے۔ میں اپنے قریبی رشتہ داروں تک کے لئے اجنبی بن چکا ہوں۔‘‘ ریاض اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سے اس کی بیوی نے عدالت میں عرضی داخل کی ہے اس کے بعد سے اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ریاض کا کہنا ہے کہ ’’وہ مجھ سے طلاق دینے کے لئے کہہ سکتی تھی لیکن مجھے آئی ایس سے منسلک کرنا، یہ پوری طرح ظالمانہ اقدام تھا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز