کیرالہ میں کانگریس کی قیادت والی اپوزیشن نے جمعرات کو وزیر اعلیٰ پینارائی وجین کو لیفٹ حکومت کے ’کے-فان پروجیکٹ‘ پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ یہ ’اے آئی کیمرہ پروجیکٹ‘ سے بھی بڑا گھوٹالہ ہے۔ کیرالہ فائبر آپٹک نیٹورک (کے-فان) پروجیکٹ 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت وزیر اعلیٰ نے 30 ہزار سرکاری دفاتر کے علاوہ 20 لاکھ گھروں میں مفت انٹرنیٹ کا وعدہ کیا تھا۔
Published: undefined
اسمبلی میں حزب مخالف لیڈر وی ڈی ستیسن نے میڈیا سے کہا کہ اس پروجیکٹ کی لاگت 1028 کروڑ روپے اندازہ کیا گیا تھا اور ٹنڈر عمل پورا ہونے پر اسے بڑھا کر 1531 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ یہ زبردست خلاف ورزی تھی کیونکہ اُس وقت کے سکریٹری برائے مالیات کے ایم ابراہم نے کہا تھا کہ سرکاری پروجیکٹس کے لیے لاگت میں 10 فیصد سے زیادہ کا اضافہ نہیں ہونا چاہیے اور یہاں یہ 50 فیصد زیادہ ہے۔
Published: undefined
ستیسن نے کہا کہ اس میں بھی وہ کمپنی ایس آر آئی ٹی شامل ہے جو اے آئی کیمرہ گھوٹالے میں شامل تھی۔ کیرالہ میں ایک کارٹیل ہے جسے وجین کا آشیرواد حاصل ہے۔ سبھی معاہدے انہی کو ملتے ہیں اور حیرت انگیز طور سے یہ ایسی کمپنیاں ہیں جن کے پاس کوئی پہلے کا تجربہ نہیں ہے۔ اختصار میں بدعنوانی سے جڑے پروجیکٹس کے سبھی راستے آخر میں پریساڈیو ٹیکنالوجیز تک جاتے ہیں جس میں وجین کے قریبی خاندانی رکن شامل ہیں، کیونکہ اس کے بارے میں رپورٹ پہلے ہی سامنے آ چکی ہے۔
Published: undefined
ستیسن کا کہنا ہے کہ ’کے-فان‘ پروجیکٹ کے چھ سال بعد افسران کا کہنا ہے کہ 90 فیصد کام ختم ہو گیا ہے اور ابھی تک صرف 16000 دفاتر کو کنکشن دیئے گئے ہیں اور شروع میں صرف 14000 گھروں کو کنکشن ملے گا۔ ستیسن نے کہا کہ اب تک وجین نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ’کے-فان‘ پروجیکٹ میں وجین کے سابق چیف سکریٹری-سینئر آئی اے ایس افسر ایم شیوشنکر بھی شامل تھے۔
Published: undefined
کانگریس لیڈر نے کہا کہ خاص طور سے شیوشنکر، جو اس سال کے شروع میں سبکدوش ہوئے تھے، لائف مشن پروجیکٹ میں بدعنوانی کو لے کر جیل میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بار بار گزارش کے باوجود وجین اے آئی کیمرہ گھوٹالے پر اپنی خاموشی نہیں توڑ رہے ہیں۔ اب بھی اگر وجین نہیں بولتے ہیں تو ہمیں ’کے-فان‘ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی سے متعلق مزید دستاویزوں کے ساتھ سامنے آنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز