پبلک افیئرس انڈیکس (پی اے آئی) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس نے بی جے پی حکمراں ریاست کی بدتر حکمرانی کی ایک بار پھر قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ’گڈ گورننس‘ کے معاملے میں ملک کی کون سی ریاست اوّل مقام پر ہے اور کون پھسڈی، یہ پی اے آئی کی اس رپورٹ میں درج ہے۔ جاری فہرست کے مطابق کیرالہ جہاں بہتر حکمرانی کے معاملے میں سرفہرست ہے وہیں ’سُشاسن بابو‘ کے نام سے مشہور نتیش کمار کی ریاست بہار سب سے پیچھے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاپ 4 ریاستوں میں ایک بھی بی جے پی حکمراں ریاست نہیں ہے اور سب سے آخر 4 پائیدان پر ایسی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی یا تو حکمراں ہے یا حکومت میں اس کی شراکت داری ہے۔
پی اے آئی دراصل ریاستوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کی فہرست جاری کرتی ہے اور ایک حصہ 18 ریاستوں پر مبنی ہوتا ہے جن میں ملک کی بڑی ریاستیں ہوتی ہیں اور دوسرا حصہ 12 ریاستوں پر مبنی ہوتا ہے جہاں کی آبادی 2 کروڑ سے کم ہے۔ جہاں تک چھوٹی ریاستوں کا سوال ہے، ہماچل پردیش گڈ گورننس کے معاملے میں سرفہرست ہے اور اس کے بعد گوا کا نمبر آتا ہے۔ میزورم، سکم اور تریپورہ بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں مقام پر ہے۔
جہاں تک بڑی ریاستوں کا سوال ہے، پی اے آئی کے ذریعہ 2017 کی رپورٹ کا موازنہ اگر اس سال جاری رپورٹ سے کیا جائے تو کیرالہ نے اپنا پہلا مقام برقرار رکھا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کا ’ماڈل ریاست‘ گجرات تیسرے مقام سے کھسک کر پانچویں مقام پر چلا گیا ہے۔ اس سال دوسرے مقام پر تمل ناڈو اور تیسرے مقام پر تلنگانہ ہے جب کہ کرناٹک نے چوتھا مقام حاصل کیا ہے۔ تمل ناڈو اور کرناٹک پچھلے سال بھی اسی مقام پر تھا لیکن تلنگانہ لمبی چھلانگ مارتے ہوئے 13 ویں مقام سے تیسرے مقام پر پہنچ گئی ہے۔
فہرست میں خراب کارکردگی پر نظر ڈالیں تو بہار سب سے پیچھے ہے جہاں وزیر اعلیٰ نتیش کمار سُشاسن کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ انھوں نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ’ڈبل انجن‘ کے سہارے بہار میں گڈ گورننس لانے کی بات کہی تھی لیکن وہ اپنے وعدہ کو پورا کرتے ہوئے معلوم نہیں ہو رہے ہیں۔ فہرست میں نیچے سے دوسرے نمبر پر جھارکھنڈ، تیسرے نمبر پر مدھیہ پردیش اور چوتھے نمبر پر اتر پردیش ریاستیں ہیں اور یہ سبھی بی جے پی حکمراں ریاست ہیں۔ اگر ان ریاستوں کا مقابلہ گزشتہ سال کی فہرست سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جھارکھنڈ نے اپنی جگہ برقرار رکھی ہے جب کہ مدھیہ پردیش 12ویں سے 16ویں نمبر پر آ گئی ہے اور اتر پردیش بھی 14ویں مقام سے 15ویں مقام پر آ گئی ہے۔ گویا کہ ان ریاستوں کی کارکردگی گزشتہ سال کے مقابلے خراب ہی ہوئی ہے۔
Published: 23 Jul 2018, 9:34 PM IST
بنگلورو واقع پبلک افیئر سنٹر کے ذریعہ جاری سال 2018 کی اس رپورٹ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھلے ہی بی جے پی حکمراں ریاستوں میں قانون کا راج ہونے اور ترقی کرنے کی بات کہیں لیکن زمینی حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔ اس بار پی اے آئی کی رپورٹ میں بچوں سے متعلق بھی ایک سیکشن جوڑا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کون سی ریاست بچوں کی نشو و نما کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔ اس فہرست میں بھی کیرالہ نے اول مقام حاصل کیا ہے جب کہ ہماچل پردیش اور میزورم کو دوسرا مقام حاصل ہے۔ 18 بڑی ریاستوں میں جھارکھنڈ بچوں کے لیے سب سے زیادہ مشکل ریاست قرار دیا گیا ہے اور یہ 18ویں مقام پر ہے۔ اس کے بعد بچوں کے لیے خراب ماحول کے لحاظ سے بہار (17واں مقام)، آسام (16واں مقام)، مدھیہ پردیش (15واں مقام) اور اتر پردیش (14واں مقام) کا نمبر آتا ہے۔ وزیر اعظم کی ریاست گجرات کی حالت بھی اس معاملے میں خراب ہے اور وہ 10ویں مقام پر ہے۔
پی اے آئی کے ذریعہ جاری رپورٹ کے بعد بی جے پی حکمراں ریاستوں میں اپوزیشن کا حملہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ریاستی صدر کمل ناتھ نے شیوراج سنگھ چوہان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں بہار میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے ٹوئٹ کے ذریعہ جنتا دل یو-بی جے پی حکومت کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ کمل ناتھ نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا ہے کہ ’’یہ ہے شیوراج سرکار کے سُشاسن اور ترقی کے دعووں کی حقیقت... پبلک افیئرس انڈیکس کی رپورٹ میں ملک کی بڑی 18 ریاستوں میں سُشاسن کے معاملے میں مدھیہ پردیش 16ویں نمبر پر...۔‘‘
Published: 23 Jul 2018, 9:34 PM IST
نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور آر جے ڈی لیڈر تیجسوی پرساد نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’اس حصولیابی کے لیے اپنے آپ کو سُشاسن بابو کہنے والے نتیش کمار اور ان کے اس جھوٹ کی تشہیر کرنے والے لوگوں کو مبارکباد۔‘‘ ایک دیگر ٹوئٹ میں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’کیرالہ حکومت کو ’بیسٹ‘ ریاست بننے کے لیے مبارکباد اور دوگنا مبارکباد ڈبل انجن بی جے پی + جے ڈی یو حکومت کو ’وارسٹ‘ (خراب کارکردگی) بننے کے لیے۔‘‘
Published: 23 Jul 2018, 9:34 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Jul 2018, 9:34 PM IST