دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے سب سے پہلے دہلی کے پرائیویٹ اسپتالوں پر بیان دیا کہ وہ مریضوں کو داخل نہیں کر رہے ہیں اور اس کے لئے کالا بازاری کا سہارا لے رہے ہیں۔ اور اب نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے اعلان کیا ہے کہ آنے والے وقت میں کورونا پازیٹو مریضوں کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ پہنچ جائے گی جس کے لئے 80000 ہزار بستروں (بیڈس) کی ضرورت ہوگی۔ یہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ آخر اب تک دہلی حکومت کیا کر رہی تھی؟
Published: undefined
مئی کے وسط میں ہی ماہرین نے انتباہ دیا تھا کہ جولائی شروع ہوتے ہوتے دہلی میں کورونا پازیٹو مریضوں کی تعداد 5 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے لیکن دہلی حکومت سوتی رہی۔ اور اب جبکہ کورونا کے مریضوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اسپتالوں نے انہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے تو دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ شور شرابہ کر رہے ہیں کہ انہیں کتنے بستر چاہئیں۔ خیال رہے کہ دہلی میں فروری ماہ میں ہی کورونا کے مریضوں کی تصدیق ہو گئی تھی۔
Published: undefined
اب چار مہینے گزر جانے کے بعد بھی دہلی حکومت کو خبر نہیں ہے کہ دہلی کس سمت میں جا رہی ہے، مارچ ماہ کے بعد سے ہی یہاں مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے کیجریوال حکومت لیپا پوتی میں مصروف رہی اور اس سے پہلے تو وہ مریضوں کی تعداد میں ہی ہیرا پھیری کرتی رہی۔
Published: undefined
کورونا وبا کے اتنے بھیانک حالات میں لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال کے ڈائریکٹر کو معمولی وجہ کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اسپتال میں کورونا کے مریضوں کی اصل تعداد عوامی کر دی تھی جو کہ دہلی حکومت کے اعداد سے میل نہیں کھاتی تھی۔ اور اب نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے تو ایک طرح سے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں کہ ’ہمارے بس کی بات نہیں ہے‘۔ بلاشبہ دہلی حکومت 5 لاکھ سے زیادہ مریضوں کا بوچھ برداشت نہیں کر سکتی، تو پھر ایک مہینے سے بھی کم وقت میں 80000 بستر آئیں گے کہاں سے؟ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں پی پی ای کٹس اور وینٹی لیٹرس بھی کیسے مہیا ہوں گے؟ صرف کھیل اسٹیڈیموں کو کووڈ اسپتال میں بدل دینے سے تو مسئلہ کا حل نہیں ہو جائے گا۔ سسودیا جی، نیند سے جاگیے، دہلی والوں کو اس سے راحت نہیں ملنے والی۔
Published: undefined
دہلی کے موجودہ حالات بے حد نازک اور بدتر ہیں۔ مریض ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں داخل ہونے کے لئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ میں خود ایک ایسے مریض سے نجی طور پر واقف ہوں جس نے دہلی کے چار نجی اسپتالوں میں داخل ہونے کی کوشش کی، لیکن اسے کہیں جگہ نہیں مل سکی۔ آخر کار ایمس میں اسے داخل کیا گیا لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور داخل ہونے کے دو گھنٹے بعد ہی اس نے دم توڑ دیا۔ ایسی کہانیاں دہلی کے ہر اسپتال کے باہر مل جائیں گی۔ لیکن سسودیا جی کو تبھی پتہ چلتا ہے جب میڈیا میں کوئی خبر دکھائی جاتی ہے۔
Published: undefined
ظاہر ہے کہ جب فروری میں کورونا وائرس نے دہلی پر حملہ کیا تو کیجریوال حکومت نے ملک کی راجدھانی کو اس وبا سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس دہلی حکومت نے اخباروں میں پورے پورے صفحہ کے اشتہارات دے کر میڈیا کو اپنی طرف کرنے کی کوششیں کیں۔ کیجریوال حکومت کے پاس میڈیا کو منانے کے لئے تو پیسہ اور وقت دونوں تھے لیکن وبا سے نمٹنے کے لئے کوئی ترکیب نہیں تھی، جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ مہلک وائرس موت کا فرشتہ بن کر دروازے پر کھڑا ہے۔
Published: undefined
اس بحران کے دور میں کیجریوال بری طرح فیل ہو چکے ہیں اور دہلی والوں کی جان پر بن آئی ہے۔ کیجریوال خود کو سب سے الگ طرح کا رہنما ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور عوامی زندگی میں اخلاقی قدروں کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔ اسی اخلاقیات کے نام پر کیجریوال کو اب استعفی دے دینا چاہیے، کیونکہ انہوں نے اس بحران کے دور میں ووٹروں کا بھروسہ توڑ دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز