گزشتہ 14 ستمبر کو 22 سالہ رضوانہ دوڑی دوڑی اپنی دوست کے گھر پہنچی جو کہ اس کے گھر سے چند قدم دور تھا۔ سری نگر کے جنوب میں کوئی 60 کلو میٹر دور کاجی گنڈ کے پنجیت وان پورا میں رضوانہ کی دوست نے دروازہ کھولا تو اس نے ہڑبڑا کر پوچھا کہ ’’تمھارے پاس سینیٹری پیڈ ہے کیا؟‘‘ رضوانہ کی دوست نے اپنی اسٹیل کی الماری سے پرانے اخبار میں لپٹا ایک بنڈل نکالا اور رضوانہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رضوانہ نے بتایا کہ ’’کشمیر میں پابندیوں کے سبب وہ سینیٹری پیڈ تک نہیں خرید پائی۔‘‘
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
قابل غور ہے کہ گزشتہ 5 اگست سے کشمیر وادی تقریباً پوری طرح بند ہے۔ اسی دن مرکز کی مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ختم کر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک حصہ جموں و کشمیر کو اسمبلی والا مرکز کے ماتحت ریاست اور لداخ کو بغیر اسمبلی والا مرکز کے ماتحت ریاست قرار دے دیا تھا۔
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
کشمیر اس دقیانوسی سماج کا حصہ ہے جہاں ماہواری کی بات کرنا یا سینیٹری پیڈ کی کھلے عام خریداری کرنے کو برا تصور کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں باتیں صرف خواتین کے درمیان سرگوشیوں میں ہی ہوتی ہیں۔ اننت ناگ کی غزالہ مصطفی بتاتی ہے کہ کس طرح اس کی ماں نے اسے پرانے کپڑے استعمال کرنے پر مجبور کیا کیونکہ وہ سینیٹری پیڈ خریدنے کے لیے گھر سے باہر نہیں جا سکتی۔
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
پڑوسی ضلع کلگام میں پوسٹ گریجویٹ کر رہی طالبہ صائمہ فاروقی نے کئی بار پیڈ خریدنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔ حالانکہ کئی بار اس کے علاقے میں فارمیسی کی دکان چپکے سے آدھا شٹر گرا کر کھلتی ہے، لیکن وہ وہاں نہیں جا سکی۔ صائمہ بتاتی ہے کہ ’’میں نے تین بار کوشش کی، اور ایک بار تو میں دکان تک پہنچ بھی گئی تھی، لیکن وہاں ہر وقت سی آر پی ایف جوان کھڑے رہتے ہیں، اس لیے میں پیڈ نہیں خرید پائی۔‘‘
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
صائمہ کی عمر دراز ماں نے اس بارے میں اپنی بیٹی کو اس نامہ نگار سے کھل کر بات کرنے کی آزادی دی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ لگاتار ہڑتال اور پابندیوں کے سبب وہ اور بھی بہت سی ضرورت کی چیزیں کسی اور دکان سے نہیں خرید پائے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’مین مارکیٹ میں صرف کچھ ایک دکانیں ہی شام کے وقت آدھی کھلتی ہیں، لیکن وہاں جانا ہمیشہ من میں اندیشہ پیدا کرتا ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ کب سیکورٹی فورس وہاں آ جائیں اور کوئی ہنگامہ یا تصادم شروع ہو جائے۔‘‘
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
وادی کے دیہی علاقوں میں خواتین سینیٹری نیپکن جیسی چیزیں کچھ خاص دکانوں سے ہی خریدتی ہیں۔ بہت سی خواتین نے بتایا کہ ایسی زیادہ تر دکانیں بند ہیں، اس سے خواتین کو عجیب قسم کی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ پلوامہ سے محض 6 کلو میٹر دور ایک گاؤں میں رہنے والی روبیہ کا کہنا ہے کہ ’’میں ہمیشہ شہر جا کر ایک خاص دکان سے پیڈ لاتی تھی، لیکن گزشتہ ایک مہینے سے میں شہر جا ہی نہیں پائی ہوں۔‘‘ اسکارف سے چہرے ڈھکے کالج جا رہی لڑکیوں کے ایک گروپ نے بھی روبیہ کی بات کی حمایت کی۔
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
وادی کی ایک ڈاکٹر مسرت جان کہتی ہیں کہ جب بھی اس قسم کے حالات ہوتے ہیں تو خواتین ماہواری کے دنوں میں پرانے کپڑوں وغیرہ کا استعمال کرتی ہے، جس سے ان کی صحت کو خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے خواتین کو کئی بیماریوں کا شکار ہونے کا اندیشہ ہو جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جلد کی بیماری سے لے کر سروائیکل کینسر تک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
اس بارے میں ایک سرکاری افسر نے پہچان چھپانے کی بات کہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وادی میں سینیٹری پیڈ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن یہ مانا کہ کچھ خواتین کو انھیں خریدنے میں دقتیں ضرور ہو رہی ہیں۔ غور طلب ہے کہ اسی سال جولائی میں جموں و کشمیر کی آئی اے ایس افسر سہرش اصغر نے ماہواری کے دوران صحت کا خیال رکھنے کی بحث شروع کی تھی۔ انھوں نے لڑکیوں کے کئی اسکولوں میں سینیٹری پیڈ ڈسپنسر لگوائے تھے۔ وہ بڈگام میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر تعینات تھیں۔
(اس رپورٹ میں شامل خواتین اور لڑکیوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔)
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM IST
تصویر: پریس ریلیز