جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی مودی حکومت لگاتار یہی دعویٰ کر رہی ہے کہ وادی میں سب کچھ ٹھیک ہے اور معمول پر ہے۔ لیکن جموں و کشمیر میں تعینات افسر اور سیکورٹی فورسز کی بات پر یقین کریں تو حالات کافی سنگین ہیں۔ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی وادی میں بند ہے، دو مہینے بعد بھی حالات ویسے ہی بنے ہوئے ہیں۔ وہاں موجود افسروں کا ماننا ہے کہ حالات معمول پر ہونے کی جگہ مزید بگڑ سکتے ہیں۔
بازار میں اب بھی سناٹا پسرا ہوا ہے۔ انٹرنیٹ اور سیل فون سروس ابھی تک پوری طرح سے بحال نہیں ہو پائی ہے۔ اس کا اثر صحت خدمات پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسکول اور کالج بند ہیں۔ سینکڑوں لوگ حراست میں ہیں۔ حالانکہ گورنر کہہ رہے ہیں کہ حالات پہلے سے کافی بہتر ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے سیاحوں پر پابندی عائد کرنے والے حکم واپس لیے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس ماحول میں کوئی بھی سیاح شاید ہی وہاں جائے۔ وہیں بی جے پی کو چھوڑ کر 24 اکتوبر کو ہونے والے بلاک ڈیولپمنٹ کونسل (بی ڈی سی) کا انتخاب لڑنے سے سبھی پارٹیوں نے انکار کر دیا ہے۔
انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے ایک درجن سے زیادہ نوکرشاہوں اور پولس افسروں سے بات کرنے کے بعد ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت بھلے ہی کچھ بھی کہے لیکن وادی میں حالات معمول پر نہیں ہیں۔ ایک افسر نے بتایا کہ ’’ہم کہتے تھے کہ سیکورٹی فورس گھڑی دیکھتے ہیں، جب کہ دہشت گردوں کے پاس ہمیشہ وقت ہے۔ لیکن، اب یہاں معاملہ دوسرا ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ وہ ہر وقت جموں و کشمیر کے باشندوں پر نظر رکھ سکتی ہے۔‘‘ افسر نے کہا کہ ’’ہمیں پورا یقین نہیں ہے کہ لوگوں کو تھکا دینے والا یہ عمل اثر انداز ہوگا، لیکن ہم سبھی کو اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں حالات معمول پر نہیں ہیں۔‘‘
ایک اعلیٰ افسر نے اخبار کو بتایا کہ ’’ایشو اور مسئلہ دو ایسے عام لفظ ہیں جنھیں یہاں کے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں سنتے ہیں۔ کیا آپ نے انھیں 5 اگست سے سنا ہے؟ صرف اس لیے کہ کوئی بھی ان الفاظ کا تذکرہ نہیں کرتا ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں معمول پر ہیں؟‘‘ کئی دیگر بڑےا فسروں کا بھی یہی ماننا ہے۔ ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’’دہلی کو لگتا ہے کہ اگر ابھی تک کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا ہے تو حالات معمول پر ہیں۔ یہ سوچ غلط ہے۔‘‘
Published: 09 Oct 2019, 12:07 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Oct 2019, 12:07 PM IST