سری نگر: وادی کشمیر میں منگل کے روز مسلسل 23 ویں دن بھی ہڑتال رہی۔ اس دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ تاہم سری نگر کے سول لائنز و بالائی شہر اور مختلف اضلاع کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔
Published: undefined
سری نگر کے پائین شہر سے اگرچہ کرفیو ہٹا لیا گیا ہے تاہم مختلف نوعیت کی پابندیاں اور بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی بدستور جاری رکھی گئی ہے۔ یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار جس نے منگل کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا نے دیکھا کہ پائین شہر کی بیشتر سڑکوں کو لوگوں کی آمدورفت کے لئے کھول دیا گیا ہے۔
Published: undefined
پائین شہر میں بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز اہلکار تعینات رکھے گئے ہیں۔ نوہٹہ میں واقع تاریخی و مرکزی جامع مسجد کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے۔ اس تاریخی مسجد کے باہر تعینات فورسز اہلکار کسی بھی فوٹو یا ویڈیو جرنلسٹ کو مسجد کی تصویر لینے یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
Published: undefined
فورسز اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں ہدایات ملی ہیں کہ کسی بھی صحافی کوجامع مسجد کی تصویر لینے یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دینی ہے۔ ادھر پائین شہر میں منگل کے روز بھی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ 23 ویں دن بھی سڑکوں سے غائب رہا۔ پائین شہر میں کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنانے کے لئے بڑی تعداد میں فورسز اہلکار تعینات رکھے گئے ہیں۔
Published: undefined
وادی بھر میں فون، انٹرنیٹ اور ریل خدمات گزشتہ 23 دنوں سے معطل ہیں جبکہ بیشتر تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔ وادی میں ای بزنس مکمل طور پر ٹھپ ہے جبکہ ڈاک خانوں میں معمول کی ڈاک سروسز پر بھی انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔ سیاحتی اور باغبانی کے شعبوں سے وابستہ افراد کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔
Published: undefined
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی گاڑیاں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن گاڑیوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے اسٹیٹ بنک آف انڈیا کی بیشتر شاخوں پر تالا لگا ہوا ہے۔ وہ افراد جن کے ایس بی آئی کی بنک شاخوں میں کھاتے ہیں نے بتایا کہ بنک شاخوں کے مسلسل بند رہنے سے انہیں بہت سےمشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنک کے بیشتر اے ٹی ایم بھی بند پڑے ہیں۔
Published: undefined
موصولہ اطلاعات کے مطابق سری نگر کے علاوہ وادی کے دیگر 9 اضلاع میں بھی منگل کے روز مسلسل 23 ویں دن بھی دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ تاہم سڑکوں پر نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں اور پھل و سبزی فروشوں کو سڑکوں کے کنارے گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ کسی بھی علاحدگی پسند یا دوسری تنظیم نے ہڑتال کی کال نہیں دی ہے بلکہ جس ہڑتال کا سلسلہ جاری وہ غیر اعلانیہ ہے۔ انتظامیہ نے کشمیر میں سبھی علاحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو تھانہ یا خانہ نظر بند رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو چھوڑ کر ریاست میں انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیڈران کو سرکاری رہائش گاہوں، اپنے گھروں یا سری نگر کے شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع سنٹور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
Published: undefined
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پتھراؤ کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے اور لوگ بھی اپنا کام کاج بحال کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالات کو معمول پر لانے کے لئے پتھربازوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے تاہم انہوں نے گرفتار کئے گئے افراد کی تعداد منکشف کرنے سے معذرت ظاہر کردی۔
Published: undefined
وادی میں تین ہفتوں سے جاری مواصلاتی پابندی کی وجہ سے زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح سے متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔ عام لوگوں کو بالعموم جبکہ طلباء اور پیشہ ور افراد کو بالخصوص شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کشمیری طلباء نے حکومت سے وادی میں مواصلاتی خدمات بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined