کشمیر کے کولگام میں مغربی بنگال واقع مرشد آباد کے 5 مزدوروں کا قتل جب شورش پسندوں نے کیا تو مقتول کے اہل خانہ کو تو جیسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ پھر بعد میں ایک زخمی مزدور کے انتقال کی خبر بھی سامنے آ گئی۔ کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی مہلوک سبھی مسلم مزدوروں کے گھر والے یہ سوچ کر حیران ہیں کہ آخر یہ سب کیسے ہو گیا۔ ایک مہلوک قمرالدین کے بڑے بھائی 34 سالہ ساحر کئی بار کشمیر جا کر مزدوری کا کام کر چکے ہیں، وہ پھر کشمیر جانا چاہتے تھے، لیکن یہ ارادہ انھوں نے ترک کر دیا ہے۔ وہ ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے نمناک آنکھوں سے کہتے ہیں کہ ’’ہم نے کئی دہشت گردانہ حملے دیکھے ہیں، لیکن انھوں نے مزدوروں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ اس بار کیا ہو گیا؟ حکومت کو اس کا جواب دینا چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’کشمیر اب بدل چکا ہے۔ اچھی ملازمت ملنے پر بھی اب ہم وہاں نہیں جائیں گے۔‘‘
Published: 31 Oct 2019, 6:11 PM IST
29 اکتوبر کو کولگام میں شورش پسندوں کا شکار قمرالدین اور دیگر پانچ مزدوروں کے اہل خانہ کی تقریباً ایک جیسی حالت ہے۔ قمرالدین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک مہینے پہلے ہی کشمیر روزگار کی تلاش میں گیا تھا اور مزدوری کرنا شروع بھی کر دیا تھا۔ مرشد آباد کے بہل نگر گاؤں میں رہنے والے قمرالدین کی بیوہ روشن آرا بی بی کہتی ہیں کہ ’’وہ 3 اکتوبر کو کشمیر گئے تھے۔ انھوں نے سوچا تھا کہ سیب اور دھان کی کٹائی کے موسم میں ان کی کمائی مقامی جگہ کے مقابلے کشمیر میں دوگنی ہو جائے جس سے بیٹی رحیمہ کا علاج ہو سکے گا۔‘‘ دراصل قمرالدین کی بیٹی رحیمہ گردے کی بیماری میں مبتلا ہے، لیکن والد کی موت کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے سب کچھ اجڑ گیا۔
Published: 31 Oct 2019, 6:11 PM IST
دہشت گردانہ حملے میں قمرالدین کے علاوہ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کے نام ظہیر الدین شیخ، رفیق شیخ، نظام الدین شیخ، رفیق الشیخ اور مرسلین شیخ ہیں۔ 52 سالہ رفیق شیخ اپنے گھر میں تنہا کمائی کرنے والے فرد تھے۔ وہ گزشتہ 20 سالوں سے کشمیر میں کام کر رہے تھے اور کبھی دہشت گردوں کے ذریعہ مزدوروں پر حملہ ہوتے نہیں دیکھا۔ گزشتہ پیر کے روز جب انھوں نے اپنی بیوی سمیرن بی بی سے آخری بار بات کی تو انھوں نے کہا تھا کہ کام پورا ہو چکا ہے اور گھر جلد واپسی ہوگی۔’جن ستّا‘ ہندی نیوز پورٹل سے سمیرن بی بی نے کہا کہ ’’اب وہ کبھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ ہماری تین بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے دو کی شادی ہو چکی ہے لیکن تیسری سسرال میں کچھ پریشانیوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے۔ ان کی (رفیق کی) ماں بھی ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ لیکن میں اب کیا کروں گی؟‘‘
Published: 31 Oct 2019, 6:11 PM IST
ظاہر ہے کہ سبھی ہلاک مزدوروں کے گھروں میں ماتم کا ماحول ہے اور انھیں اپنا مستقبل تاریک بھی نظر آ رہا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ مرشد آباد کے جس بہل نگر گاؤں سے ان مزدوروں کا تعلق ہے، وہاں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ گھر کا اہم کمائی کرنے والا شخص دہشت گردی کا شکار ہو گیا ہے تو گھر والوں کا پریشان ہونا لازمی ہے۔ ایک مہلوک رفیق الشیخ کے بھائی شفیق الشیخ کا کہنا ہے کہ ’’میں کئی بار کشمیر گیا ہوں، لیکن کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شورش پسند کبھی کبھی آتے تھے اور ہمیں دھمکاتے بھی تھے لیکن انھوں نے کبھی ہم پر حملہ نہیں کیا۔ لیکن اس سال جب سے خصوصی ریاست کا درجہ چھینا گیا ہے، تب سے حالات بدل گئے ہیں۔‘‘ شفیق الشیخ نے مزید کہا کہ ’’ہر سال 300-250 سے مزدور کشمیر جاتے تھے، لیکن اس سال یہ تعداد گھٹ کر 60-50 رہ گئی۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
Published: 31 Oct 2019, 6:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Oct 2019, 6:11 PM IST
تصویر: پریس ریلیز