سری نگر: وادی کشمیر میں گزشتہ زائد از دو ماہ سے موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی، جو ہنوز جاری ہے، کے دوران اہلیان وادی کو جن متنوع مصائب و گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ان مصائب ومشکلات سے نصف صدی قبل کے لوگ بھی دوچار نہیں تھے۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان کے ایک دن قبل ہی وادی میں تمام تر مواصلاتی نظام کو معطل کیا گیا جو ہنوز جاری ہے تاہم بعد ازاں لینڈ لائن سروس کو مرحلہ وار بحال کیا گیا۔ انتظامیہ نے لوگوں کی سہولیت کے لئے وادی کے بعض حصوں میں اگست کی 17 تاریخ کو لینڈ لائن سروس بحال کی تھی اور بعد ازاں 4 ستمبر تک تمام لینڈ لائنوں کو بحال کیا گیا تھا جن کی تعداد 50 ہزار بتائی گئی تھی۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
مواصلاتی نظام پر پابندی کے ساتھ ہی اہلیان وادی کو نہ صرف بیرون ریاست وملک اپنے احباب و اقارب کے ساتھ رابطہ منقطع ہوا بلکہ وادی کے اندر بھی اپنے اقارب و دوستوں کے ساتھ تعلقات منقطع ہوگئے یہاں تک کہ ایمرجنسی سروسرز جیسے اسپتالوں، فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز، پولس وغیرہ کے ساتھ بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا جس کے نتیجے میں لوگوں کو طرح طرح کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ مواصلاتی نظام پر عائد پابندی، جس کو وادی میں اب تک کی بدترین مواصلاتی پابندی تصور کیا جاتا ہے، نے سری نگر میں رہائش پذیر لوگوں کا جینا دو بھر کردیا، دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کے مشکلات اس سے کئی گنا زیادہ تھیں۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
کمیونیکیشن معطل ہونے سے یہاں لوگوں کوملک کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم بچوں، تجارت یا کوئی دوسری نوکری کرنے والوں کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے سے سخت ترین پریشانیاں جھیلنی پڑیں، وادی کے اندر رہنے والے لوگ بھی پریشان اور باہر قیام پذیر لوگوں کا حال زیاد ہی خراب ہوا۔ 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل اور بعد بھی سفر محمود پر روانہ ہوئے حاجی صاحبان اور ان کے اعزہ و اقارب کی پریشانیاں قلمبند کرنا بھی محال ہے۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
لوگ منجملہ بالخصوص طلبا اور بے روزگار ہوئے نوجوان ذہنی بیماریوں کے شکار ہوگئے اور یہاں جو ذہنی بیماریوں کا گراف پہلے ہی کافی بلند تھا، آسمان کو چھونے لگا۔ غلام محمد وانی نامی ایک شہری جس کا بیٹا بیرون ریاست زیر تعلیم ہے، نے یو این آئی اردو کے ساتھ اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ کے بعد جب میں نے اپنے بیٹے کو ملنے گیا تو وہ زار وقطار رونے لگا اور میری آنکھیں بھی اشک بار ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ 'جب یہاں پانچ اگست کو سب کچھ ٹھپ ہوگیا تو میں نے پندرہ دن گزر جانے کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تمام کوششیں نامراد ثابت ہوئیں پھر قریب ایک ماہ کے بعد میں اس کو ملنے کے لئے گیا تو مجھے دیکھ کر وہ زار وقطار رونے لگا اور پھر کہا کہ ہم آپ کے متعلق از حد فکر مند تھے'۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
اگر کوئی شخص اچانک بیمار ہوجائے تو کسی طرح اس کو اسپتال تو منتقل کیا جاتا ہے لیکن گھر سے نکلتے ہی مریض وتیمارداروں کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اور پھر جب تک نہ اسپتال سے کوئی تیماردار گھر آئے یا گھر سے کوئی اسپتال چلا جائے تب تک بیمار کے حال کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے۔ مواصلاتی نظام پر عائد پابندی سے یہ بھی معلوم ہونا مشکل ہوجاتا ہے کہ بیمار کو کس اسپتال میں داخل کیا گیا۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
شبیر احمد نامی ایک شہری نے اپنی اہلیہ کی اچانک طبیعت بگڑ جانے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ 'میری اہلیہ شام دیر گئے اچانک بیمار ہوگئی تو کسی طرح گاڑی کا بندوبست کرنے کے بعد ہم نے اس کو اسپتال منتقل کیا لیکن گھر والوں کے ساتھ رابطہ نہیں رہا جس کے باعث ہمارے گھر والوں کو رات بھر وادی کے چار بڑے اسپتالوں کی خاک چھاننی پڑی کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم کس اسپتال میں ہیں'۔بعض لوگوں کو دو دو دنوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مریض کس اسپتال میں زیرعلاج ہیں اور ان کی حالت کیسی ہے۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
اگر کہیں کسی کی موت واقع ہو جاتی تھی تو دوردراز علاقوں کے رشتہ داروں کو فون کرکے مطلع کیا جاتا تھا لیکن اب ایسی صورتحال میں انہیں مطلع کرنے کے لئے ایک قاصد کو بھیجنا پڑتا ہے تو کبھی کھبار ایسا بھی ہوتا ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد قریبی رشتہ دار آتے ہیں۔ وسطی ضلع بڈگام کے ایک دورافتادہ گاؤں کے محمد امین نامی ایک شہری نے کہا کہ ان کے ایک ماموں کی موت واقع ہوئی لیکن وہ ان کے دفن ہونے کے ایک دن بعد وہاں پہنچے۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
سری نگر کے مضافات میں حال ہی میں دو دکانیں خاکستر ہوئیں تو فائر سروس کو بلانے کے لئے ایک آدمی کو موٹر سائیکل پر بھیج دیا گیا اور پھر جب تک وہ لوگ مشینری سمیت جائے واردات پر پہنچے تو آگ نے اپنا کام کیا تھا اور دکانیں مکمل خاکستر ہو چکی تھیں۔ دوردراز علاقوں میں آ گ لگنے کی وجہ سے فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہوگئیں کیونکہ متعلقہ محکمہ کے ساتھ وقت پر رابطہ نہیں ہوسکا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اگر فون چل رہے ہوتے تو فائر سروس والے وقت پر پہنچتے تو دکانوں کو اس قدر ہوئے نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
وادی میں مواصلاتی پابندی سے صحافیوں کو بھی بدترین مشکلات سے دوچار ہونا پڑا، ایک تو ان کے ذرائع مفقود ہوگئے اور دوسرا اپنی رپورٹ فائل کرنے کے لئے انہیں اپنے دفتر پیدل آنا پڑ رہا ہے اور اپنی رپورٹوں کو میل کرنے کے لئے سری نگر میں قائم میڈیا سینٹر کا روزانہ بنیادوں پر چکر کاٹنا پڑ رہا ہے اوروہاں ناکافی انتظامات کے باعث مزید مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مواصلاتی پابندی سے یہاں زمانہ قدیم کی کئی یادیں تازہ ہوئیں اور اب رشتہ داروں یا دوستوں کو کوئی پیغام بھیجنے کے لئے باقاعدہ پرانے زمانے کی طرح آدمی بھیجنا پڑتا ہے اور جو کام پانچ منٹ میں ہوتا تھا اب اسی کام کو انجام دینے کے لئے ایک دن لگ جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انتطامیہ نے زائد از دو ماہ کے بعد پیر کے روز وادی میں پوسٹ پیڈ موبائل سروس بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ پر عائد پابندی کب ہٹائی جائے گی یہ آنے والا وقت ہتائے گا۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Oct 2019, 9:00 PM IST