قومی خبریں

کاس گنج: مسلمانوں کی دکانیں جلیں، غیر مسلم روزی سے محتاج!

بظاہر تو محسوس ہوتا ہے کہ آگزنی کا مقصد صرف اقلیتی طبقہ کو نقصان پہنچانا ہے لیکن جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو متاثر سبھی ہوتے ہیں۔ در حقیقت نفرت کے سوداگر نہ ہندوؤں کے ہیں اور نہ مسلمانوں کے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا کاس گنج میں نذر آتش ہوئیں دکانیں

کاس گنج: 26 جنوری کو کاس گنج میں ترنگا یاترا کے نام پر ہوئے فساد کے بعد شرپسندوں نے 27 جنوری کو گھنٹہ گھر چوک پر واقع مسلمانوں کی کئی دکانیں نذر آتش کردی گئی تھیں اور کئی گاڑیاں بھی جلا دی گئی تھیں۔

بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فساد اور آگزنی کا مقصد صرف اور صرف اقلیتی طبقہ کو نقصان پہنچانا ہے لیکن جب بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو متاثر دونوں طبقے کے افراد ہوتے ہیں۔ در حقیقت نفرت کے سوداگر نہ ہندوؤں کے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے۔

کاس گنج میں مسلمانوں کی 5 دکانیں نذر آتش کی گئیں جس کی وجہ سے دکان مالکان کا تو لاکھوں کا نقصان ہوا ہی ساتھ ہی ان دکانوں پر کام کرنے والے درجنوں ملازمین بھی فاقہ کشی پرمجبور ہو گئے ہیں۔

انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق نذر آتش کی گئیں 5 دکانوں میں تقریباً 20 ملازمین ہندو طبقہ سے وابستہ تھے، جو اب بے روزگار ہو گئے ہیں اور وہ کافی مایوس ہیں۔

دکان جل جانے کی وجہ سے بے روزگار ہوئے ایک شخص ویر بہادر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’’میں گزشتہ 7 سالوں سے بابا شو کمپنی میں کام کر رہا تھا۔ مجھے روزانہ 180 روپے ملتے تھے لیکن اب مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔ میں اب دوسری نوکری ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘ بابا شو کمپنی کے مالک سردار علی خان نے اس سلسلہ میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بہادر نے مجھے کئی بار فون کر کے پیسے مانگے ہیں۔ میں اسے 500 روپے دے سکتا ہوں لیکن اسے کہیں اور نوکری تلاش کرنی ہوگی۔‘‘ سردار علی کا مزید کہنا ہے کہ ’’اس تشدد میں 8 لاکھ کا سامان جل گیا، میں اب دوبارہ یہ دکان کیسے بناؤں گا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان کے یہاں 6 افراد کام کرتے تھے جن میں سے 4 ہندو تھے۔

اس تشدد میں منصور احمد کی دکان بھی جلائی گئی جہاں 6 ہندو کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میری زیادہ تر بچت اہلیہ کے علاج میں ختم ہو چکی ہے جس کی دو سال قبل موت بھی ہو گئی۔ اس دوران میں نے قرض بھی لیا تھا جسے ابھی تک چکا رہا ہوں۔ ‘‘ منصور احمد کا کہنا ہے کہ’’میری دکان میں 50 لاکھ کا سامان تھا اور 1.75 لاکھ روپے نقد تھے۔ آگ میں سب کچھ جل گیا۔ 6 ملازمین میں سے بابو رام اور راہل نے پیسوں کے لئے مجھے فون کیا لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں اس لئے میں انہیں پیسے نہیں دے سکتا۔‘‘

بابو رام گزشتہ 20 سالوں سے منصور احمد کے پاس کام کر رہا تھا۔ بابو رام کا کہنا ہے کہ ’’ہم بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ہم سے جو بن پڑے گا منصور صاحب کی مدد کریں گے۔ جن لوگو ں نے دکانیں جالائیں ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس دکان کے زیادہ تر ملازمین ہندو ہیں۔‘‘

Published: 07 Feb 2018, 11:38 AM IST

کاس گنج سے متعلق خبریں:

Published: 07 Feb 2018, 11:38 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 07 Feb 2018, 11:38 AM IST