کاس گنج معاملے میں سوشل میڈیا پر ایک نیا ویڈیو گردش کر رہا ہے جس نے نہ صرف ہندوتوا ذہنیت والوں کی سازش کا پردہ فاش کر دیا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ ’ترنگا یاترا‘ تو صرف بہانہ تھا، دراصل انھیں فساد پھیلانا تھا۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ ویڈیو میں 20-25 لوگ نظر آ رہے ہیں اور صرف 1 شخص کے ہاتھ میں ترنگا جھنڈا ہے۔ بقیہ کے ہاتھوں میں یا تو بندوقیں ہیں یا پھر پتھر اور ڈنڈے۔ غور کرنے والی بات ہے کہ آخر ’ترنگا یاترا‘ میں بندوقوں کا کیا کام۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’ترنگا یاترا‘ کے پس پشت فساد کی منصوبہ بند سازش تیار ہوئی تھی جس کو انجام تک پہنچانے کے لیے 26 جنوری کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو کے بعد ملک میں شر پسند عناصر کی سرگرمی اس لیے بھی ظاہر ہو گئی ہے کیونکہ اتر پردیش کے امیٹھی میں منگل کے روز دو فرقہ میں ہوئے تصادم کے دوران اشفاق نامی شخص کی موت اور گزشتہ دنوں باہری دہلی کے علی پور میں فساد بھڑکانے کی کوششیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔
کاس گنج سے متعلق تازہ ترین ویڈیو چونکہ کسی نے چھت سے موبائل کے ذریعہ تیار کیا ہے اس لیے کوالٹی بہت اچھی نہیں ہے لیکن اتنا واضح ہے کہ کسی کے ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ساتھ ہی اس ویڈیو میں چار پانچ راؤنڈ گولی چلنے کی بھی آواز سنائی دے رہی ہیں جو کہ ہوا میں فائر کی گئی تھی۔ ایک خبر رساں ایجنسی نے اس ویڈیو کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ویڈیو اسی وقت کی ہے جب چندن گپتا کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد یہ معمہ مزید الجھ گیا ہے کہ آخر چندن گپتا کس کی گولی کا نشانہ بنا۔ دراصل چندن گپتا کا ایک ویڈیو پہلے بھی سامنے آ چکا ہے جو اس کی موت سے پہلے کا ہے اور ترنگا یاترا کے دوران وہ بائیک پر سوار یاترا کی قیادت کر رہا ہے۔ اس ویڈیو میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ’وندے ماترم‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے بھی لگا رہا تھا۔
بندوق سے فائرنگ پر مبنی تازہ ویڈیو نے ایک طرف تو ملک دشمن عناصر کے منصوبوں پر سے پردہ ہٹانے کا کام کیا ہے اور دوسری طرف ہوش مند لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک میں بدامنی پھیلانے والے کس حد تک گر گئے ہیں۔ پورے ملک کے اقلیتی طبقہ میں ایک خوف بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ دہلی میں مقیم ایک ریسرچ اسکالر فیصل نذیر اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’جب بھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے اس لیے ہمیں زیادہ صبر کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’شر پسند عناصر جان بوجھ کر اقلیتوں کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی مرتبہ تو مسلم محلوں میں جا کر پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہیں اور نازیبا کلمات ادا کرتے ہیں تاکہ کوئی رد عمل سامنے آئے۔ اور جب کوئی رد عمل ہوتا ہے تو پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے بھڑکانے میں نہ آئیں اور ان کے منصوبے کو ناکام کر دیں۔‘‘
دہلی میں سماجی طور پر سرگرم خان رضوان تازہ ویڈیو پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کاس گنج فساد منصوبہ بند ہونے کی باتیں تو فساد کے اگلے دن سے ہی سامنے آنے لگی تھیں لیکن تازہ ویڈیو سے مزید یقین ہو گیا ہے۔ دراصل سب کچھ حکومت کے اشارے پر ہو رہا ہے۔ جب سے بی جے پی حکومت برسراقتدار آئی ہے شرپسندوں کا حوصلہ بلند ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی سازش تیار کر اقلیتی طبقہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘‘ موجودہ ماحول میں ہندو-مسلم اتحاد اور انسان دوستی کو فروغ دینے کی بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’کاس گنج واقعہ میں زخمی ہوئے اکرم نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ میں شکرگزار ہوں ان ہندوؤں کا جنھوں نے مجھے اسپتال پہنچایا اور میری جان بخش دی۔ اکرم کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں اور ایسے ہی لوگ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کو بچا سکتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اکرم نے اسپتال میں دیے گئے اپنے ایک بیان میں لوگوں سے گزارش کی تھی کہ وہ درگزر کرنا سیکھیں اور جو نقصانات ہوئے ہیں اس کا بدلہ نہ لیں۔ اکرم کے بیان کے بعد دانشور طبقہ نے کہا تھا کہ کچھ شرپسندوں کی وجہ سے اکثریتی طبقہ کے سبھی لوگوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندو اور مسلمان سبھی مل کر شر پسندوں کے منصوبوں کو ناکام بنائیں۔
Published: 01 Feb 2018, 5:58 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Feb 2018, 5:58 AM IST
تصویر: پریس ریلیز