شرم آتی ہے یہ لکھتے ہوئے کہ اس سال یو پی کے شہر کاس گنج میں یوم جمہوریہ کا جشن یوم غم میں تبدیل ہوگیا ۔فرقہ وارانہ فساد نے ایک ہندو نوجوان چندن گپتا کو موت کے آغوش میں سولا دیا جبکہ نوشاد نام کا نوجوان اسپتال میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا ہے ، وہیں علی گڑھ کے ایک اسپتال میں اکرم نام کے نوجوان کی آنکھ تو بچ گئی لیکن اپنی ایک آنکھ گنوا بیٹھے اکرم لکھیم پور کھیری سے کاس گنج اپنی سسرال گیا تھا اور وہاں سے اپنی حاملہ اہلیہ کو علی گڑھ کے اسپتال میں زچگی کے لئے لے جا رہا تھا کی فسادیوں کا شکار ہو گیا ، دنگائیوں نے اس کی داڑھی دیکھتے ہی اس پر حملہ کر دیا اور بری طرح زدکوب کرکے اس کی ایک آنکھ بھی پھوڑ دی ، زخمی حالت میں ہی اکرم کار چلاتا ہوا کسی طرح اسپتال پہنچا جہاں اس کی بیوی زچہ خانہ میں اور وہ خود آنکھ کے شعبہ میں زیرعلاج ہے ۔
ہنگامہ اور تشدد کے سلسلہ میں متضاد خبریں آ رہی ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میڈیا خاص کر چینل اور ہندی اخبارات نے جیسے سچ نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے ، اس شرمناک صورت حال کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بڑے اخباری گروپ سے شائع ہونے والے ہندی اخبار کی رپورٹ کچھ کہتی ہے اور اردو اخبار ات کی رپورٹ کچھ اور،
بہر حال اب تک کی موصول خبروں کے مطابق کاس گنج کے مسلمان عبدالحمیدتراہے پر یوم جمہوریہ کے موقع پر پرچم کشائی کی تیّاریاں کر رہے تھے نماز بعد یہ تقریب ہونے والی تھی کہ اسی درمیان بی جے پی کی طلباء شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لڑکے موٹر سائیکلوں پر بھگوا جھنڈے لگائے ادھر سے گزرے ، کچھ لڑکوں کی بائیکوں پر ترنگا بھی لگا ہوا تھا لیکن اس کی تعداد بہت کم تھی، ان لوگوں نے اپنا جلوس نکل جانے کے لئے وہاں موجود لوگوں سے کرسیاں ہٹانے کو کہا اس پر تقریب کے منتظمین نے کہا کہ ہمارا فنکشن شروع ہونے والا ہے اس کے بعد ہم کرسیاں ہٹا لیں گے جب تک آپ لوگ بھی پرچم کشائی کی تقریب میں شریک ہو جائیں۔ لیکن اے بی وی پی کے یہ لڑکے نہیں مانے انہوں نے نہ صرف کرسیاں اٹھا کے پھینکنا شروع کر دیں بلکہ بزرگوں تک سے مار پیٹ شروع کر دی اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگانے لگے ، اسی درمیان دونو ں گروپوں میں مارپیٹ شروع ہو گئی ، کسی نے دیسی پستول سے گولی چلا دی جو چندن گپتا نام کے ایک نوجوان کو لگی جس کی اسپتال میں موت ہو گئی ، اس سلسلہ میں چندن کے والد نے کچھ لوگوں کے خلاف نامزد رپورٹ لکھوائی ہے جس کی تادم تحریر گرفتاری نہیں ہو سکی ہے۔
اس معاملہ میں ضلع انتظامیہ کی کوتاہی کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ تو دعویٰ کر رہی ہے کہ اے بی وی پی کی نام نہاد ترنگا یاترا جو دراصل بھگوا یاترا تھی اس کو نکالنے کی اجازت نہیں لی گئی تھی ، سوال یہ ہے کہ بغیر اجازت یہ بھگوا یاترا نکالنے کی اجازت کیوں دی گئی اور اگر نکل بھی رہی تھی تو اس کے ساتھ معقول پولس بندوبست کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ہنگامہ شروع ہوتے ہی منتظمین نے پولس کو فون پر اطلاع دی لیکن پولس فورس نے پہنچنے میں خاصی تاخیر کی جس کے سبب فسادیوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔
یوم جمہوریہ یا یوم آزادی پر علی الصبح پربھات پھیریاں نکالنے کا تو پرانا دستور رہا ہے جو دھیرے دھیرے معدوم ہو گیا ہے ۔ لیکن ترنگا یاترا بالکل نئی روایت ہے جو بی جے پی کی طلباء شاخ نے گزشتہ چند برسوں سے شروع کی ہے ۔ کہنے کو تو یہ ترنگا یاترا ہے لیکن در اصل یہ بھگوا یاترا ہے ،کیونکہ آگے ایک ترنگا پرچم ہوتا ہے پھر دو چار لڑکوں کے ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے باقی سبھی کے ہاتھوں میں اور موٹر سائیکلوں پر بھگوا جھنڈا لگا ہوا ہو تا ہے، اے بی وی پی کے یہ نوجوان بہت جارحانہ انداز میں نعرے لگاتے ہوئے چلتے ہیں مسلم علاقوں میں پہنچتے ہی پاکستان مرداباد ، بھارت میں رہنا ہے تو بندے ماترم کہنا ہے ، جیسے نعرے ضرور لگا تے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس یاترا کا مقصد خالص سیاسی ہوتا ہے آر ایس ایس کی لیڈرشپ اچّھی طرح سمجھ گئی ہے کہ محض فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا کر ہی وہ دوبارہ الیکشن جیت سکےگی کیونکہ چار سال کی مودی سرکار میں عوام کے مسائل بد سے بدتر ہو چکے ہیں معاشی محاذپر مودی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے چھوٹے بڑے کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں کسان خودکشی کر نے پر مجبور ہیں ان کی پیداوار ان کے گھروں پر پڑ ی سڑ رہی ہے نوجوان نوکریوں کے لئے در در بھٹک رہے ہیں مودی جی پکوڑے بیچنے کا مشورہ دے کر ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ، ایسے سخت معاشی حالات سے دو چار عوام کو مذہب اور راشٹرواد کی افیم پلا کر انھیں اصل مسائل سے دور رکھ کر ان کا جذباتی استحصال کرکے ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس سے عمدہ ترکیب اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کوخیالی دشمن بنا کے پیش کیا جائے ٹھیک اسی طرح جس طرح نازی جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کو پیش کیا تھا ۔ سبھی سیاسی مبصّرین ،صحافیوں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کاس گنج جیسے واقعات کا سلسلہ آیندہ پارلیمانی انتخابات تک نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں جاری رکھےگی کیونکہ یہی اس کی یو ایس پی ہے اس کے بغیر اس کی ناؤ پار ہی نہیں ہو سکتی ۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز