لکھنؤ: اتر پردیش کے کاس گنج ضلع میں ایک نوجوان کی پولیس حراست میں موت واقع ہونے پر پولیس کے طریقہ کار پر پھر سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ ’جن ستا‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پولیس نے ایک لڑکی کو اغوا کرنے کے الزام میں الطاف ولد چاہت میاں کو حراست میں لیا تھا۔ الطاف کی منگل کے روز تھانہ کی حوالات میں موت ہو گئی تھی، جس پر پولیس کا کہنا ہے کہ نوجوان نے حوالات کے بیت الخلا میں پھانسی لگا کر جان دے دی۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق پھانسی لگا لینے کے بعد الطاف کو آناً فاناً میں پولیس اہلکار اشوک نگر واقع کمیونٹی ہیلتھ مرکز لے آئے۔ جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ پولیس خواہ اسے خودکشی کا معاملہ قرار دے رہی ہے لیکن متوفی کے اہل خانہ سے قتل قرار دے رہے ہیں۔ معاملہ کی سنجیدگی کے پیش نظر ضلع کے ایس پی نے 5 پولیس اہلکاروں کو لاپروائی برتنے کے الزام میں معطل کر دیا اور تحقیقات کے احکامات صدر کر دیئے۔
Published: undefined
اس معاملہ پر یوتھ کانگریس کے صدر سری نواس بی وی نے ٹوئٹ کر کے یوپی پولیس کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا، ’’تھانہ کے باتھ روم میں لگے نل کی ٹونٹی سے لٹک کر کوئی خود کشی کیسے کر سکتا ہے؟ کیا ملزم کا قد 1-2 فٹ تھا؟‘‘ انہوں نے کاس گنج پولیس سپرنٹنڈنٹ روہن پرمود بوترے کا بیان بھی شیئر کیا ہے۔
Published: undefined
’جن ستا‘ کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے اطلاع دی ہے کہ الطاف نے جیکٹ کی ڈوری کو پھندا بنا کر باتھ روم کے نل سے پھانسی لگا کر خود کشی کی۔ وہیں، الطاف کی موت پر والد چاہت میاں کا الزام ہے کہ لڑکی کو اغوا کرنے کے معاملہ میں تفتیش کے بعد انہوں نے خود ہی بیٹے کو پولیس کو حوالے کیا تھا لیکن پولیس والوں نے حوالات میں میرے بیٹے کو مار ڈالا۔
Published: undefined
اس معاملہ میں ایس پی نے جن پولیس اہلکاروں کو معطل کیا ہے ان میں کوتوالی انچارج انسپکٹر ویریندر سنگھ اندولیا، ایس آئی چندریش گوتم، وکاس کمار، ہیڈ محرر گھنیندر سنگھ، کانسٹیبل سوربھ سولنکی شامل ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @revanth_anumula
تصویر: پریس ریلیز