تو کیا سپریم کورٹ نے ہماری جمہوریت کو بچا لیا اور آئین کی حفاظت کی؟ اکثریت ثابت کرنے کا حکم دینا اور ایک اینگلو انڈین کی گورنر کی طرف سے کی گئی تقرری کو خارج کر دینا اتنا غیر متوقع تھا کہ لوگوں نے راحت اور خوشی کا اظہار کیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے ایسا محسوس ہوا کہ آئین پر لوگوں کا یقین بنا رہ گیا۔
لیکن اس سے قبل کہ میں اپنے کچھ خدشات کو ظاہر کروں، فیصلہ دینے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے ارکان جسٹس سیکری، جسٹس بوڈبے اور جسٹس بھوشن کے اس فیصلہ کے کچھ چنندہ نکات پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
جمعرات کو اسی وجہ سے اپنی نصف شب کی سماعت میں سپریم کورٹ نے ان کاغذات کو پیش کرنے کا حکم دیا جو حکومت سازی کا دعوی کرتے ہوئے بی جے پی ارکان اسمبلی کے رہنما نے گورنر کو سونپے تھے۔
جب عدالت عظمیٰ کے سامنے وہ لیٹر پیش کیا گیا تو یہ صاف ہو گیا کہ بی جے پی نے کسی اور پارٹی کے کسی بھی رکن اسمبلی کا نام نہیں دیا تھا اور نہ ہی دونوں آزاد امیدواروں کے نام یدی یورپا کے لیٹر میں شامل تھے۔
بالفاظ دیگر یہ کہیں کہ بی جے پی نے جب گورنر سے ملاقات کی تو ان کے پاس 112 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ دوسری جانب ایچ ڈی کماراسوامی کی طرف سے سونپے گئے لیٹر میں 117 ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعوی کیا گیا تھا۔
ان لیٹروں سے نہ تو تعداد کے حوالہ سے کوئی شبہ رہ جاتا ہے اور نہ ہی اس بات پر کہ گونر کے ذریعہ بی ایس یدی یورپا کی تقرری غیر آئینی تھی۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور سے مقرر کئے گئے بغیر اکثریت کے وزیر اعلیٰ کو عہدے پر برقرار رکھا اور تمام ایگزیکیوٹیو فیصلے لینے کی چھوٹ دی۔
Published: 19 May 2018, 8:58 AM IST
سپریم کورٹ کے لئے آسان تھا کہ فلور ٹیسٹ کا حکم دینے سے پہلے وہ وزیر اعلیٰ کی تقرری کو ہی خارج کر دیتی۔ جو کہ ایک صحیح فیصلہ ہوتا۔ غیر قانونی طور سے مقرر وزیر اعلی کس طرح اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے؟
سپریم کورٹ پہنچے عرضی گزاروں نے گورنر کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ نے پیچھے ہٹتے ہوئے اس مدے کو نظر انداز کر دیا۔
لوگوں کو یقینی طور سے بھروسہ ہے کہ کسی بھی طرح کی دھمکی یا لالچ کام نہیں آئے گا۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ گورنر اور غیر قانونی طور سے مقرر وزیر اعلیٰ فلور ٹیسٹ کو متاثر کرنے کے لئے اپنے عہدے کا غلط استعمال نہیں کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو لوگ سپریم کورٹ کو ہی الزام دیں گے کہ اس نے اہم مدے پر فیصلہ نہ لے کر آسان راستہ اختیار کیا اور نہ ہی گورنر کی کوئی مذمت کی اور نہ ہی پوری طرح غیر آئینی تقرری کو خارج کیا۔
اگر ایمانداری سے کہیں تو سپریم کورٹ کے جج بہت زیادہ دباؤ میں ہوں گے اس لئے ججوں نے اس طرح کا فیصلہ دیا کہ حکومت سے سیدھا ٹکراؤ نہ ہو۔
لیکن چھوٹی چھوٹی راحتوں سے لوگوں کو اطمینان کرنا ہوگا اور امید کرنی ہوگی کہ عوام الناس کی رائے اور آئین کا بنیادی مقصد آگے بڑھتا رہے گا۔
Published: 19 May 2018, 8:58 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 May 2018, 8:58 AM IST
تصویر @revanth_anumula