قومی خبریں

کرناٹک ہائی کورٹ کے جج پر سپریم کورٹ کا از خود نوٹس، مسلمان اکثریتی علاقے کو 'پاکستان' قرار دیا تھا

کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی شریشانند کے اس بیان پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹ لیا ہے جس میں انہوں نے بنگلورو کے ایک علاقے کو 'پاکستان' قرار دیا تھا

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

 

نئی دہلی: کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی شریشانند کے اس بیان پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹ لیا ہے جس میں انہوں نے بنگلورو کے ایک علاقے کو 'پاکستان' قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت میں پانچ ججوں کی بینچ نے کہا کہ عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

یہ معاملہ اُس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں جسٹس شریشانند کو بنگلورو کے ایک علاقے کو 'پاکستان' قرار دیتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس بیان کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کو ہدایت کی کہ وہ چیف جسٹس سے ہدایت حاصل کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرے۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اور اس پر فوری طور پر کارروائی ہونی چاہیے۔

Published: undefined

اس موقع پر بنچ میں جسٹس ایس کھنہ، بی آر گوائی، ایس کانت اور ایچ رائے بھی شامل تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر عدلیہ کے کام کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ عدلیہ کی گفتگو کا طرز ٹھیک رہے۔ بنچ نے ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ دو دن کے اندر رپورٹ پیش کرے۔

Published: undefined

رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ ایک 'مکان مالک-کرایہ دار' تنازعہ کی سماعت کے دوران سامنے آیا، جب جسٹس شریشانند نے 28 اگست کو کہا کہ ’میسور روڈ فلائی اوور کی طرف جائیں، ہر آٹو رکشہ میں 10 لوگ ہوتے ہیں۔ بازار سے گوی پلیا تک میسور روڈ فلائی اوور پاکستان میں ہے، ہندوستان میں نہیں!‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کتنا بھی سخت عہدیدار کیوں نہ بھیج دیں، اسے پیٹا ہی جائے گا اور یہ کسی چینل پر بھی نظر نہیں آئے گا۔

Published: undefined

دریں اثنا، انہوں نے ایک خاتون وکیل کے بارے میں بھی غیر مناسب تبصرہ کیا۔ ایک کلپ میں انہیں کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون وکیل مدعا علیہ کے بارے میں کافی معلومات رکھتی ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے زیر جامہ کا رنگ بھی بتا سکتی ہیں!

بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا عدلیہ کے ایسے بیانات معاشرتی ہم آہنگی میں مزید فرق ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس معاملے کی قانونی حیثیت بھی زیر بحث ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی اس پر خود نوٹس لیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ ایسی زبان کا استعمال ناقابل قبول ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined