نئی دہلی: کرناٹک کانگریس حکومت دہلی پہنچ چکی ہے اور اس نے بدھ کے روز نئی دہلی کے جنتر منتر پر اپنا احتجاج شروع کر کے مرکز سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کو وسائل اور فنڈز میں منصفانہ حصہ فراہم کرے۔
آئی اے این ایس کی رپورٹ کے مطابق، وزیر اعلیٰ سدارمیا نے کہا کہ احتجاج سیاسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، “آج ہم تاریخی جنتر منتر پر احتجاج کر رہے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار، تمام 34 وزراء اور 135 ارکان اسمبلی احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ریاست اور کرناٹک کے عوام کے مفاد میں کیا جانے والا احتجاج ہے۔‘‘
Published: undefined
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں مرکز کی طرف سے مثبت جواب ملنے کا یقین ہے، سدارمیا نے کہا، ’’یہ حقیقت سے بالاتر ہے کہ مرکز جواب دے گا یا نہیں، کرناٹک کے لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے۔ مجھے اب بھی امیدیں ہیں۔ سولہواں مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جا چکا ہے۔ یہ ظلم جاری نہیں رہنا چاہیے۔ مرکزی حکومت کو ناانصافی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ میں نے اس سلسلے میں اعتماد نہیں کھویا ہے۔‘‘
Published: undefined
یہ پوچھے جانے پر کہ اگر مرکزی حکومت احتجاج کو نظر انداز کرتی ہے تو کیا ہوگا، وزیر اعلیٰ نے کہا، "ہم لڑتے رہیں گے اور ہم اس مسئلے کو عوام تک لے کر جائیں گے۔"
کانگریس حکومت کی طرف سے مرکزی گرانٹس کے استعمال کے بارے میں وائٹ پیپر جاری کرنے کے مطالبے پر ایک سوال کے جواب میں سدارمیا نے کہا کہ وہ اسے بجٹ کے بعد ضرور لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ دراصل ایک وائٹ پیپر بننے جا رہا ہے۔
Published: undefined
کانگریس کے احتجاج کے خلاف کرناٹک میں بی جے پی کے احتجاج کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا، "وہ پارلیمنٹ کے اندر یا باہر جو بھی احتجاج کریں گے وہ کرناٹک کے لوگوں کے مفاد کے خلاف ہوگا۔
انہوں نے کہا، ’’کرناٹک انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، سیس، سرچارج اور کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے مرکز کو 4.30 لاکھ کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ مرکز کی طرف سے ریاست سے لیے گئے 100 روپے میں سے صرف 12 سے 13 روپے ہی واپس کیے جاتے ہیں۔ کرناٹک کو 50257 کروڑ روپے مل رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
وزیراعلیٰ سدارمیا نے کہا، "جہاں اتر پردیش کو 2.80 لاکھ کروڑ روپے اور بہار کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ دیے گئے ہیں۔ پانچ سال پہلے کرناٹک کو 50 ہزار کروڑ روپے ملتے تھے۔ آج جب بجٹ کا حجم دوگنا ہو گیا ہے، پھر بھی ریاست کو صرف 50257 کروڑ روپے مل رہے ہیں، کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟
ان کا کہنا تھا، ’’اگر وسائل کی تقسیم 1971 کی مردم شماری کے مطابق ہوتی تو ناانصافی نہ ہوتی، فی الحال تقسیم 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہو رہی ہے، جن ریاستوں نے آبادی کو کنٹرول نہیں کیا، انہیں زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined