بنگلور: جنوبی ریاست کرناٹک میں حجاب تنازعہ کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب ریاست کے ساحلی علاقے میں کچھ ایسے پوسٹر اور بینر نظر آ رہے ہیں جن پر لکھا ہے کہ مسلمان مندروں میں لگنے والے سالانہ میلوں میں دکانیں نہیں لگا سکتے۔
Published: undefined
مقامی لوگوں کے مطابق ہندوتواوادی گروپوں نے مسلمانوں کے دکانیں لگانے پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد بیشتر مندر کمیٹیاں دباؤ میں آ گئیں۔ ہندوتواوادیوں کا کہنا ہے کہ حجاب پر فیصلے کے بعد مسلم تنظیموں نے بند کا اعلان کیا اور اپنی دکانیں بند رکھیں۔ لہذا مندروں کو انہیں سالانہ میلے میں اسٹال لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ پتور تعلقہ کے مہالنگیشور مندر میں 20 اپریل سے سالانہ میلے کا انعقاد کیا جانا ہے اور اس میلے میں لگائی جانے والی عارضی دکانوں کے لئے زمین نیلام کی جانی ہے۔ اس نیلامی میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور صرف ہندوؤں کو ہی اسٹال کے لئے بولی لگانے کی اجازت ہوگی۔
Published: undefined
سالانہ تہوار کا اسی طرح کا پوسٹر جنوبی کنڑ ضلع کے بپن ڈوئی سری درگاپامیشوری مندر میں بھی دیکھا گیا۔ پوسٹر میں لکھا گیا ہے ’’ایسے لوگوں کو یہاں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو قانون کا احترام نہیں کرتے، اتحاد کے خلاف ہیں اور اس گائے کو قتل کرتے ہیں، جس کی ہم پوجا کرتے ہیں۔ ہندو اب بےدار ہو چکے ہیں۔‘‘
Published: undefined
منگلورو شہر کے پولس کمشنر ششی کمار کے مطابق، اس بات کا پتہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ بینرز کس نے لگائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس معاملہ میں کوئی شکایت درج کرائی جاتی ہے تو قانونی ٹیم سے مشورہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ تحصیلدار موقع پر جا کر رپورٹ تیار کریں گے، جس کی بنیاد پر مزید کارروائی کی جائے گی۔
کرناٹک کے مندروں میں عام طور پر اپریل میں سالانہ تہوار یا میلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس دوران لاکھوں لوگ مندر جاتے ہیں اور کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔
Published: undefined
سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس لیڈر سدارامیا نے اس اقدام کو قابل مذمت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ ضلعی حکام اس فیصلے پر خاموش ہیں اور ایسا ہونے دے رہے ہیں۔ سدارامیا نے کہا کہ حکومت آئین کی حفاظت کی پابند ہے اور اسے آئین پر سوال اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined