وزیر اعظم نریندر مودی کا موازنہ شمالی کوریائی آمر کم جونگ ان سے کرنے والے پوسٹر اور ہورڈنگ لگانے کے الزام میں کانپور پولس نے 22 تاجروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولس نے جمعرات کو پوسٹر لگانے کے الزام میں شاردا نگر کے رہائشی پروین کمار کو گرفتار کیا۔ خبروں کے مطابق پروین ایک مزدور ہے تاجروں نے اس سے یہ کام کروایا ہے۔ پولس نے بتایا کہ اس معاملہ میں یو پی اسپیشل پاورس ایکٹ کی دفعہ 32 (3)، آئی پی سی کی دفعہ 153 اے اور 505 کے تحت ابتدائی رپورٹ درج کی گئی ہے۔
کانپور میں لگے پوسٹروں اور ہورڈنگ میں ایک طرف کم جون ان کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ میں دنیا کو تباہ کر دوں گا اور دوسری طرف وزیر اعطم مودی کی یہ کہتے ہوئے تصویر لگائی گئی ہے کہ میں تاجروں اور کاروباریوں کو تباہ کر دوں گا۔
پوسٹر میں مودی سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ضروری ہو تو ریڈیو پر اپنے من کی بات پروگرام میں بتائیں کہ لوگ سکوں کا استعمال کہاں کریں۔ پولس اور میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کی طرف سے وہاں لگائے گئے اس بینر کو ہٹا دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے، ’’بیوپاریوں کی مجبوری :ہم بیوپاری ہیں ، ہمیں بھی جینے اور اپنے خاندان کو پالنے کا حق ہے۔ ‘‘
تاجروں کی طرف سے سکے جمع کرنے یا نوٹوں کو تبدیل کرنے سے بینکوں کے انکار کی شکایت نے عجیب و غریب صورت حال پیدا کر دی ہے۔ تاجروں کا الزام ہے کہ بینکوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کے پاس سکے رکھنے کے لئے جگہ نہیں ہے یہاں تک کہ کانپور میں کاروباری اداروں نے سکے لینا ہی بند کر دیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد سکوں پر غیر رسمی پابندی نے انہیں گھٹنو پر لا دیا ہے۔
پولس کی طرف سے ملزم بنائے گئے کانپور کے تاجر راجو کھنہ نے نیشنل ہیرالڈ کو بتایا کہ ، ’’ ہم مٹھائی کے کاروبار میں ہیں۔ ہمارے مال کی ادائیگی سکوں میں ہوتی ہے ۔ ضلع کے تمام چھوٹے بڑے کاروباریوں کے پاس تقریباً 200 کروڑ کے سکے موجود ہیں۔‘‘
Published: undefined
ایک اور تاجر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ، ’’بینک نے تجوری کی کمی بتاتے ہوئے سکے جمع کرنے سے انکار کر دیا۔ پوسٹر اور ہورڈنگ لگانے سے قبل ہم نے ضلع مجسٹریٹ، بینک افسران کو تحریری درخواست دی اور اخباروں میں بھی مسئلہ کو اٹھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر ہمارا کاروبار ہی تباہ ہو جائے گا تو ہم کیا کریں گے؟‘‘ تاجر نے مزید کہا، ’’ ہم ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں اس لئے ہم نے اپنے احتجاج کے طور پر پوسٹر لگائے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ، ’’جس طرح ہم پر مقدمہ درج کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں مودی کی آمریت چل رہی ہے۔حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف کوئی بھی آواز نہیں اٹھا سکتا ہے۔ ‘‘
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان کے ملازمین بھی اپنی تنخواہ سکوں میں لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ، ’’اپنا کاروبار چلانے کے لئے تاجرین 20-25 فیصد نقصان پر سکوں کو تبدیل کر رہےہیں۔‘‘
تاجر نے مزید کہا کہ ’’مٹھائی کاروباریوں، پرنٹنگ پریس مالکان، کرایہ کی دکانوں کے مالکان اور ڈیئری مالکان سمیت تمام تاجرین جن کے پاس نوٹ بندی سے قبل 30-40 ملازمین کام کرتے تھے آج ان کے پاس محض 10 یا اس سے بھی کم ملازمین کام کر رہے ہیں۔‘‘
کرن بیوپار منڈل کے صدر گوپال سردانا نے کہا کہ تاجروں کی تنظیمیں آنے والے دنوں میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مہم چلانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ اپنا احتجاج درج کرانے کے لئے ہم پھول باغ میں گاندھی کے مجسمہ پر اجتماعی طور پر سکوں کو پھینکیں گے۔‘‘
ایک بیوپاری کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس بار دیوالی نہیں منائیں گے۔
کانپور کے رہائشی دیگر افراد بھی اس معاملہ پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شہر میں سکوں کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز