کیرانہ: کیرانہ ضمنی انتخاب کے معنی کچھ بڑے ہی تھے جسے شکست و فتح سے بھی کچھ الگ تصور کیا جا رہا تھا، اور کیرانہ نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے۔ 2013 کے فساد کے زہر کو مٹانے کے لیے جاٹ اور مسلموں نے متحد ہو کر ووٹنگ کی ہے اور دلتوں نے پورے من سے ان کا ساتھ دیا ہے۔
سرکاری مشینری کا غلط استعمال، مشینوں میں گڑبڑی کی ممکنہ سازش، لیڈروں کی بڑی فوج، اقتدار کی طاقت اور مکھیاوں کی سماج کو تقسیم کرنے والی تقریریں، سب ناکام معلوم ہو رہی ہیں۔ کیرانہ کے بھائی چارہ نے تاریخ میں اپنی آمد کا بگل بجا دیا ہے۔ کل تک اتحاد کے جن لیڈروں میں آپسی اختلافات کی کہانی لکھی جا رہی تھی آج وہ سب بی جے پی کو شکست دینے کے لیے متحد نظر آئے۔
کیرانہ کا انتخابی نتیجہ بی جے پی امیدوار مرگانکا سنگھ کے چہرے پر صاف جھلک رہا ہے جن کی اداسی بہت کچھ بیان کر رہی ہے۔ بی جے پی حامی مایوس ہیں جب کہ آر ایل ڈی خیمہ میں ماحول پرسکون ہے۔ مسلم، دلت، جاٹ کے جس فارمولہ پر اتحاد جشن منا رہا تھا وہ اس پر کھرا اترا ہے۔ ساتھ ہی پسماندہ ہندو ووٹ بینک میں سیندھ بھی لگتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ رمضان کی وجہ سے مسلم طبقہ گھر سے ووٹ ڈالنے نہیں نکلے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 334 بوتھ پر مشین خراب ہونے کے باوجود روزہ دار مسلمانوں نے صبر سے کام لیا اور مشین کے بدلے جانے پر ووٹنگ کی۔ یہی سبب تھا کہ ووٹنگ ڈیڑھ گھنٹے تاخیر تک ہوئی۔ بی جے پی کا روایتی ووٹ بینک کہے جانے والے ویشیہ سماج نے سخت گرمی میں خود کو ووٹ کرنے سے دور رکھا جب کہ جاٹوں نے دل کھول کر ووٹنگ کی۔
Published: undefined
امید سے کہیں بڑھ کر مسلمانوں اور جاٹوں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ووٹنگ کی جب کہ بھیم آرمی کے کارکنان کی محنت سے دلتوں نے نکوڑ اور گنگوہ میں آخری وقت تک ووٹنگ کی۔ دلتوں اور مسلمانوں کو تو مشترکہ اتحاد کے حق میں پوری طرح مانا جا رہا تھا لیکن جاٹوں میں تقسیم کا امکان تھا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ جاٹوں کا ووٹ یہاں نتیجہ خیز تصور کیا جا رہا تھا۔ مشترکہ اتحاد کی امیدوار تبسم حسن آر ایل ڈی کے انتخابی نشان پر انتخاب لڑ رہی تھیں اور آر ایل ڈی کو جاٹوں کی پارٹی کہا جاتا ہے۔ ایک لاکھ 30 ہزار کی تعداد والے جاٹوں میں اجیت سنگھ کی طرف شروعاتی جھکاو ہو گیا تھا جس کا اندازہ کر کے صرف جاٹ اکثریتی علاقے میں بی جے پی نے یہاں 16 جاٹ ممبران اسمبلی کو ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کے بعد یہاں نصف درجن ممبران پارلیمنٹ اور 8 وزراء بھی لگائے گئے تھے۔
لیکن اس کوشش سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ آر ایل ڈی کارکن آج سب سے آگے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کو گھر سے ووٹنگ سنٹر تک لے جا کر ووٹنگ کرائی۔ آر ایل ڈی کارکنان کے جوش کا عالم یہ تھا کہ بھورا گاوں میں فرضی ووٹ ڈلوانے کی کوشش کرنے کی شکایت پر ان کا بی جے پی کارکنان سے تصادم بھی ہو گیا۔ اس کے بعد جب بی جے پی لیڈر انل چوہان نے کیرانہ میں بوتھ کے اندر زبردستی کرنے کی کوشش کی تو آر ایل ڈی کارکنان نے ان کی زبردست تنقید کی۔
Published: undefined
ہر ووٹنگ سنٹر پر آر ایل ڈی کارکنان کی ایک ٹیم تھی جو مسلمانوں اور دلتوں کے لیے ووٹنگ کو سہل بنا رہی تھی۔ بنت کے مولانا رضوان کے مطابق انھوں نے کسی انتخاب میں اتنی سنجیدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ انتخاب لڑتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔ 2013 کے فساد کے بعد مسلمانوں اور جاٹوں کے درمیان تلخی پیدا ہو گئی تھی جس کو مٹانے کے لیے آج جاٹوں نے اپنی جانب سے حق ادا کر دیا۔
شاملی کے جتیندر ملک کے مطابق دراصل جاٹوں میں بڑی تبدیلی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی شاملی میں کی گئی آخری ریلی والے دن ہوئی۔ اس دن تک جاٹ طبقہ کشمکش میں مبتلا تھا۔ جب وزیر اعلیٰ نے شاملی میں کہا کہ باپ-بیٹا (اجیت اور جینت) آج ووٹوں کی بھیک مانگ رہے ہیں، تو یہ بات جاٹوں کے دل کو لگ گئی۔ جاٹوں کی خودداری جاگ گئی اور انھیں محسوس ہوا کہ جینت ہمارا اپنا ہے۔
شاملی کے شاہد عالم کے مطابق جاٹوں نے پہلے مسلمانوں سے ووٹنگ کرائی، پھر دلتوں سے اور اس کے بعد خود ووٹنگ کی۔ خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے روزہ داروں کی ہر پریشانی کا خیال رکھا۔ آر ایل ڈی امیدوار کے زیادہ تر پولنگ بوتھ ایجنٹ جاٹ ہی تھے اور وہ سب سے زیادہ مستعد رہے۔ گنگوہ کے سدھیر بھارتیہ نے سب سے پہلے مشینوں کے خلاف شکایت درج کرائی۔
Published: undefined
قابل غور ہے کہ اس سے قبل آج دن بھر مشینوں کی خرابی کا ایشو چھایا رہا۔ کیرانہ میں 334 ووٹنگ سنٹر میں مشینیں خراب ہوئیں جس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو سمیت بڑے لیڈروں نے اعتراض ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ دوپہر 3 بجے سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو نے آر ایل ڈی کے قومی صدر اجیت سنگھ کے ساتھ جا کر انتخابی کمیشن میں شکایت کی۔
Published: undefined
صبح جن بوتھوں پر مشینیں خراب ہونے کی وجہ سے ووٹنگ متاثر ہوا تھا وہاں دیر شام تک ووٹنگ کرائی گئی۔ سماجوادی پارٹی لیڈر کلدیپ اُجول کے مطابق یہ انتخاب شکست و فتح سے بڑھ کر ہو گیا تھا۔ اس سے 2019 کی سمت طے ہونی ہے، اس لیے اب شکست اور فتح کا کوئی مطلب بھی نہیں ہے کیونکہ فساد کے بعد جاٹ و مسلمانوں کے درمیان جو تلخی پیدا ہوئی تھی، آج وہ دور ہوتی نظر آئی۔ بی جے پی نے اس انتخاب میں سام، دام، دَنڈ، بھید ہر طرح کی پالیسی اختیار کی لیکن وہ پھر بھی شکست خوردہ ہی معلوم ہو رہی ہے۔ کیرانہ میں سچائی، انسانیت اور بھائی چارہ نے فرقہ پرستی کو شکست دے دیا ہے۔ آپ بس تین دن کا انتظار کیجیے، سب کچھ خود بخود صاف ہو جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز