آج حجاب معاملہ پر جب فیصلہ سنایا گیا تو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے دونوں جج کی رائے میں اتفاق قائم نہیں ہو سکا ہے۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ حجاب پہننے سے متعلق طالبات پر عائد کی گئی پابندی کو غلط ٹھہرایا، جب کہ جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر عائد پابندی کو جاری رکھنے کی بات کہی۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے حجاب کو ’مذہبی معاملہ‘ قرار دیتے ہوئے اسے بیجوئے امینوئل کیس سے جوڑا۔ یہ کیس 1985 کا ہے جس کے بارے میں اب لوگ زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ آخر بیجوئے امینوئل کیس کیا تھا جس کا تذکرہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کیا ہے۔
Published: undefined
دراصل بیجوئے امینوئل نے اس وقت اپنے مذہبی عقائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالتی لڑائی لڑی تھی جب ایک اسکول نے ان کے تین بچوں کو اس لیے نکال دیا تھا کیونکہ وہ قومی ترانہ گانے سے انکار کرتے تھے۔ بیجوئے امینوئل کیرالہ کے کوٹایم واقع کڈلور میں رہتے تھے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ اس وقت کھٹکھٹایا تھا جب این ایس ایس ہائی اسکول کڈنگور نے امینوئل کے تین بچوں کو قومی ترانہ نہ گانے کی وجہ سے معطل کر دیا تھا۔
Published: undefined
امینوئل اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی اور سات بچوں کے ساتھ بین الاقوامی مذہبی فرقہ ’یہوواہ کے گواہ‘ کی پیروی کی۔ وہ کوٹایم واقع کے ای کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے، اور 1967 میں للی کٹی سے شادی کرنے کے بعد کڈلور میں بس گئے۔ ان کے پورے خاندان نے 1974 میں ’یہوواہ کے گواہ‘ کی پیروی شروع کر دی تھی۔ ’یہوواہ کے گواہ‘ طبقہ کی پیروی کرنے والوں کا ماننا ہے کہ تعلیمات سیکولر حکومت سے سخت علیحدگی پر زور دیتی ہیں۔ حالانکہ وہ قانون کی پابندی کرنے والے شہری ہیں، لیکن بائبل کی بنیادوں پر بعض قوانین پر عمل کرنے سے وہ انکار کرتے ہیں۔ دراصل کسی ملک کے پرچم کو وہ سلامی نہیں دیتے، وہ فوجی خدمات انجام دینے سے بھی انکار کرتے ہیں، اور انتخابات میں بھی حصہ نہیں لیتے۔
Published: undefined
اس تعلق سے ’نیوز18‘ (انگریزی) پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کیرالہ کے مشہور روزنامہ ’ماتربھومی‘ نے امینوئل کے بیٹے بیجوئے کا بیان شامل کیا ہے۔ بیجوئے کے مطابق جس اسکول میں وہ (کلاس 10) اور اس کے دوسرے دو بھائی بنومول (کلاس 9) اور بندو (کلاس 5) گئے تھے، وہاں جب اس کی بڑی بہنیں بینا اور بیسی پڑھتی تھیں تو قومی ترانہ گانے کا کوئی اصول نہیں تھا۔ ساتھ ہی بیجوئے نے بتایا کہ وہ قومی ترانہ کا احترام کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ یہ مسئلہ اس وقت تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا جب کانگریس (سیکولر) کے اس وقت کے رکن اسمبلی وی سی کبیر نے اسے کیرالہ اسمبلی میں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) کے ساتھ اٹھایا۔
Published: undefined
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کیرالہ کے وزیر اعلیٰ کے. کروناکرن نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ انکوائری میں ان کی طرف سے کسی بے عزتی کا ثبوت نہیں ملا، لیکن ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے زور دیا کہ لڑکوں کو اسکول میں پڑھائی جاری رکھنے کے لیے قومی ترانہ گانا چاہیے۔ امینوئل کے بیٹے بیجوئے کہتے ہیں ’’ہم حکم ماننے کو تیار نہیں تھے کیونکہ ہمارا ایمان اس کے خلاف تھا۔ اسکول میں ہمارے علاوہ آٹھ طالب علم بھی تھے، جو ’یہوواہ کے گواہ‘ کی پیروی کرتے تھے۔ ہماری ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے اسکول انتظامیہ نے 25 جولائی 1985 کو ہم سب کو معطل کر دیا۔‘‘
Published: undefined
اس کے بعد والد امینوئل نے کیرالہ ہائی کورٹ کی سنگل بنچ سے رجوع کیا لیکن اس نے بچوں کے عمل میں قومی ترانہ کی بے عزتی محسوس کیے جانے کی بات کہی۔ بعد ازاں ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے بھی اس حکم کو برقرار رکھا۔ لیکن 1985 میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر سوال اٹھا دیا اور عبوری حکم جاری کر دیا۔ اتنا ہی نہیں، جسٹس او چنپاریڈی نے 11 اگست 1986 کو حتمی فیصلہ سنایا جس میں کہا کہ طلبا کو ان کے ’مذہبی عقیدے‘ کی بنیاد پر معطل کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ ’’قانون کی کوئی بھی شق کسی کو گانے کے لیے پابند نہیں کرتی ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ آزادیٔ اظہار اور اظہارِ رائے سے متعلق حق میں خاموش رہنے کا حق بھی شامل ہے، اور قومی ترانہ کے لیے کھڑے ہو کر بچوں نے مناسب احترام کا مظاہرہ کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں اسکول سے کہا کہ وہ بچوں کو دوبارہ اسکول میں داخلہ دے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined