پٹنہ: صحافت ایک مشن ہے یہ منافع خوری کی چیز نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سیدھے سماج سے ہوتا ہے۔ عام لوگوں کا بھلا جس میں ہو، سماج کے مسئلہ کو حکومت کی دہلیز تک پہنچانے اور حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔ مذکورہ باتیں وزیر تعلیم جناب وجے کمار چودھری نے اردو صحافت کے دو سوسال مکمل ہونے کے موقع پر آج اردو میڈیا فورم کے زیراہتمام بہار اردو اکادمی میں منعقد عظیم الشان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
Published: undefined
وزیرموصوف نے کہا کہ صحافت میں غلط چیزوں کی مذمت ہونی چاہئے اور صحیح چیزوں کی ستائش ہونی چاہئے۔ اس سے سماج میں تبدیلی آتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے آجانے سے بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ صحافت صرف حقیقت بیان کرتا ہے اور وہ عوام کو ڈائرکشن بھی دیتا ہے کہ اب کیا ہونا چاہئے۔ جبکہ سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے صرف انفارمیشن دینے کا کام کرتا ہے۔ جس سے کبھی کبھی حالات بگڑ جاتے ہیں۔ باتیں بگڑتی تب ہیں جب میڈیا اہل کار خبریں پہنچانا چھوڑ خبریں فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور جب آپ کا نشانہ فروخت کرنا ہوجائے تو وہ سیدھے منافع سے جڑ جاتا ہے جس سے خبریں پراگندہ ہوتی ہیں اور آج کل تو الیکٹرانک میڈیا پر باضابطہ دانشور حضرات اسپانسرڈ بحث کرتے ہیں۔ جس سے روشن خیال لوگوں کا نقصان ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ آج جب اردو میڈیا فورم کے دوسوسالہ جشن اردو صحافت منا رہی ہے تو میں یہ عرض کروں کہ آج سے دو سو سال قبل کلکتہ سے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما نکلا تھا جس کے مدیر اور مالک ہری ہردت اور سدا سکھ دونوں ہندو تھے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اخبار صرف اخبار نہیں ہوتا بلکہ صحافت ادب کی بنیاد ہوتی ہے جو ادب تہذیب سے جڑ جائے وہ سماج کو روشنی دکھانے کا کام کرتی ہے۔ سماج جب بے سمت ہوجاتا ہے تو ادب اس کو راستہ دکھاتی ہے اور ادب کی بنیاد صحافت ہے۔ انہوں نے خورشید اکبر کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ افواہ غلط ہے کہ ہائی اسکولوں سے اردو کی لازمیت ختم ہوگئی ہے اس لئے اردو کی لازمیت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس اسکول میں بھی اردو کے طلباء ہوں گے وہاں اردو ٹیچر کو مامور کرنے کا کام کیا جائے گا۔ وزیرموصوف نے کہا کہ نتیش کمار حکومت اس ریاست کے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے۔ اور ایمانداری سے کام کر رہی ہے۔ خصوصا اقلیتی طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کا بھی کام ہو رہا ہے۔ باوجود اس کے اگر آپ لوگوں کو کسی بھی محکمہ سے شکایت ہے تو مجھ سے براہ راست مل کر مسائل رکھیں۔ اس کا حل کیا جائے گا۔
Published: undefined
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیہی ترقیات کے وزیر شرون کمار نے کہا کہ بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سیداحمد خان وغیرہ نے اپنے اخبارات کے ذریعہ آزادی کی جنگ لڑی اور عوام کو بیدار کیا۔ جس سے بھارت کو آزادی ملنے میں مدد ملی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہماری حکومت نے دیگر شعبوں میں کام کیا اسی طرح ہم لوگ اردو کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ اردو بہت میٹھی اور شیریں زبان ہے۔ یہ ہندوستان کی زبان ہے بہار کے لوگ اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ بہار کی مٹی میں اتنی تاثیر ہے کہ اگر بہار کے لوگوں کا امتحان آسمان پر بھی ہوجائے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلی نتیش کمار صرف ووٹ کی سیاست نہیں کرتے وہ سب کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اردو صحافت کے لئے جو لوگ بھی آگے چل رہے ہیں ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔
Published: undefined
راشٹریہ جنتا دل کے نائب صدر شیوانند تیواری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج صرف اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بد قسمتی سے اردو اور ہندی کا بٹوارہ ہوگیا۔ اردو کو جب سے مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی۔ اسی وقت سے اردو صحافت بحران کا شکار ہوگئی۔ آج کل تو بہت سہولیات ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب گاندھی جی چمپارن آئے تھے تو اس وقت خبروں کی ترسیل میں کافی دشواریاں تھیں۔ پھر بھی گاندھی کو گاندھی بنانے کا کام اردو صحافت نے کیا تھا۔
Published: undefined
صدارتی خطبہ میں مفتی ثناءالہدی قاسمی نے کہا کہ اردومیڈیا فورم کی جانب سے دو سو سالہ جشن میں جو آوازیں اٹھی ہیں اسے حل کیا جائے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ فورم کی جانب سے جو آواز اٹھی ہے اس کو قبول کیا گیا۔ انہوں نے فورم کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا کہ کورونا اور نامساعد حالات کے باوجود پروگرام کو منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اردو میڈیافورم کے سرپرست اشرف فرید نے اردو صحافت کا منظرنامہ پیش کیا اور کہا کہ آج اردو اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے کئی اخبارات بند ہوگئے ہیں۔ لہذا انہوں نے اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔
Published: undefined
جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور کنہہ مشق شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے مہمانوں کے لئے استقبالیہ نظم پڑھی۔ نظامت کے فرائض اردو میڈیا فورم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی نے بحسن خوبی انجام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اردو اخبارات میں بھی سلیقے سے رپورٹنگ کی جائے اور ایمانداری سے چیزیں رکھی جائیں تو حکومت کی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ لہذا حکومت پر الزام لگانے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی کے پروفیسروں کی بحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اردو اخبار کی رپورٹنگ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس موقع پر صحافت پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک ضخیم کتاب کا اجراء کیا گیا۔
Published: undefined
اس موقع پر شاعری اور اردو صحافت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ شاعری اور صحافت میں بے حد گہرا رشتہ ہے۔ اگر یہ دونوں جڑواں بہنیں نہیں ہیں تو سہیلی ضرور ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ اگر شاعر اپنی مقبولیت کے لئے اخبار کا سہارا لیتا ہے تو وہ عوامی بن جاتا ہے اور اخبارات بھی شہرت کا سبب بنتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرنے والوں میں مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلرپروفیسر توقیر عالم، معمر صحافی محمد مظاہرالدین ایڈوکیٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined