بہار میں فی الحال این ڈی اے کی حکومت ہے، لیکن یہ حکومت کب تک رہے گی یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ حکومت میں شامل پارٹیاں ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے سے کوئی پرہیز نہیں کر رہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بہار این ڈی اے ان دنوں اتھل پتھل کے دور سے گزر رہا ہے۔ بی جے پی، جنتا دل یو، ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) اور وی آئی پی سب ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بی جے پی اور جنتا دل یو میں تو بیان بازی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اس درمیان ’ہم‘ پارٹی کے سربراہ جیتن رام مانجھی کے ایک ٹوئٹ نے بہار کی سیاست میں گرمی پیدا کر دی ہے۔
Published: undefined
دراصل مانجھی نے منگل کو ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے ’’ریاست کی ترقی کے نام پر تو علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی 50-50 کی حکومتیں بنیں۔ ویسے میرا ماننا ہے کہ بہار کی ترقی، دلت، پسماندہ، اقلیتوں غریبوں کے وقار کے لیے اگر ہمیں کسی سے بھی ہاتھ ملانا ہو تو ہمیں تیار رہنا چاہیے، چاہے وہ کوئی ہو... کوئی بھی...۔‘‘
Published: undefined
مانجھی کے اس ٹوئٹ کے سیاسی ماہرین معنیٰ تلاش کرنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اسے حال کے اس معاملہ سے بھی جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے جس میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ چھیدی پاسوان نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ نتیش کمار وزیر اعلیٰ بننے کے لیے داؤد ابراہیم سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ مانجھی کے نشانے پر بی جے پی ہے جس نے جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ مل کر اتحاد کی حکومت بنائی تھی۔
Published: undefined
دوسری طرف کئی لوگ اس ٹوئٹ کو بی جے پی سے الگ ایک نئے اتحاد کی طرف اشارہ تصور کر رہے ہیں۔ ویسے بھی بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا معاملہ ہو یا پھر ذات پر مبنی مردم شماری کا معاملہ، این ڈی اے کے معاونین ایک دوسرے پر حملہ کرنے میں مصروف ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined