اگر آپ صحافی ہیں اور حکومت کے منصوبوں پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو جھارکھنڈ حکومت کے لیے آپ کے پاس ایک ’مزیدار‘ آفر ہے۔ اگر آپ نے یہاں برسراقتدار رگھوور داس حکومت کی منفعت بخش منصوبوں کے بارے میں لکھا ہے تو حکومت بھی آپ کو ’فائدہ‘ دے گی۔ آپ کو ’لکھنے کے بدلے پیسے‘ ملیں گے۔ لیکن آپ کو یہ مضمون اپنے اخبار میں یا کہیں اور چھپوانا ہوگا۔ اس کی کٹنگ انفارمیشن اینڈ پبلک رلیشنز ڈپارٹمنٹ میں جمع کرانی ہوگی۔ ایسا کرنے کے بعد آپ 15 ہزار روپے تک حاصل کرنے کے حقدار ہو جائیں گے۔ اگر آپ خوش قسمت ہیں اور آپ کا مضمون حکومت کی کتاب میں شامل کر لیا گیا تو آپ کو مزید پانچ ہزار روپے ملیں گے۔ حکومت نے ’پیڈ نیوز‘ کا یہ آفر چوری چھپے نہیں دیا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ اشتہار شائع کیا گیا ہے اور کئی صحافیوں نے درخواست بھی جمع کر دی ہے۔ درخواست کی آخری تاریخ 16 ستمبر ہے۔
Published: 16 Sep 2019, 6:10 PM IST
جھارکھنڈ حکومت کے انفارمیشن اینڈ پبلک رلیشنز ڈپارٹمنٹ (آئی پی آر ڈی) کے ڈائریکٹر کے حوالے سے جاری یہ اشتہار دو دنوں پہلے رانچی کے اخبار میں شائع کرایا گیا ہے۔ پی آر-216421 آئی پی آر ڈی (20-19) ڈی نمبر سے چھپوائے گئے اشتہار میں آئی پی آر ڈی کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ ایسے صحافیوں کے سلیکشن کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے۔ 16 ستمبر تک اپنا سبجیکٹ بتانے والے 30 صحافیوں کا انتخاب کرنے کے بعد یہ کمیٹی انھیں متعلقہ سبجیکٹ پر لکھنے کے لیے ایک مہینہ کا وقت دے گی۔ اس دوران انھیں اپنا وہ مضمون اپنے اخبار یا کسی اور جگہ چھپوانا ہوگا۔ یہی کام ٹی وی چینلوں کی رپورٹروں کو کرنا ہوگا۔ وہ اپنی رپورٹ نشر کرائیں گے۔ پھر ان شائع یا نشر مضمون یا رپورٹ کی کٹنگ یا ڈی وی ڈی (ٹی وی رپورٹ والی) وہ 18 اکتوبر تک انفارمیشن اینڈ پبلک رلیشنز ڈپارٹمنٹ میں جمع کرا دیں گے۔ اس کے بعد ان صحافیوں کو فی مضمون 15 ہزار روپے تک کی ادائیگی کرا دی جائے گی۔
Published: 16 Sep 2019, 6:10 PM IST
اس کے بعد ان 30 مضامین میں سے 25 کا انتخاب آئی پی آر ڈی کی کتاب کے لیے کیا جائے گا۔ کتاب میں شائع مضامین کو لکھنے والے صحافیوں کو فی مضمون 5 ہزار روپے مزید دیئے جائیں گے۔ گویا کہ خوش قسمت صحافی اس ’آفر‘ میں 20 ہزار تک کی اضافی کمائی کر سکتے ہیں۔ آئی پی آر ڈی سے منسلک بھروسہ مند ذرائع نے بتایا کہ دیوالی سے ٹھیک پہلے مل رہے اس ’آفر‘ کے لیے کئی صحافیوں نے درخواست بھی کر دی ہے۔
Published: 16 Sep 2019, 6:10 PM IST
کیا یہ پیڈ نیوز ہے!
انفارمیشن اینڈ پبلک رلیشنز ڈپارٹمنٹ محکمہ کے افسر اس خبر یا مضمون کو ’پیڈ نیوز‘ نہیں مانتے۔ ایک سینئر افسر نے دلیل دی کہ اسے پیڈ نیوز کیسے کہہ سکتے ہیں، اسے تو ہم اپنی کتاب کے لیے کسی نہ کسی سے تو لکھواتے ہی۔ مضمون کے بدلے پیسے تو میڈیا ادارے بھی دیتے ہیں، ہم اگر مضامین کے لیے پیسے دے رہے ہیں تو اسے ’پیڈ نیوز‘ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
Published: 16 Sep 2019, 6:10 PM IST
جب نمائندہ نے افسر سے یہ سوال کیا کہ اگر حکومت کے کسی منصوبے کے بارے میں منفی رپورٹ (اگر اسے ویسا ہی نظر آئے تو) تیار کرتا ہے، تو اسے بھی پیسے ملیں گے؟ اس کے جواب میں اس افسر نے کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور پھر اس وقت تک ہوئی بات چیت کو بغیر نام کے شائع کرنے کی سفارش بھی کر ڈالی۔ ان کی گزارش کو دیکھتے ہوئے یہاں ان کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت کیا ان 30 منتخب صحافیوں میں سے کچھ کے منفی مضامین (اگر انھیں ویسا نظر آئے) بھی شائع کرنے کی ہمت کرے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حکومت یہ پیسے کیوں دے رہی ہے۔
Published: 16 Sep 2019, 6:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Sep 2019, 6:10 PM IST