جھارکھنڈ بننے کے بعد سے ہی اتحاد بنا کر الیکشن لڑنے والی بی جے پی اور آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹ یونین یعنی آجسو کی راہیں اس الیکشن میں الگ ہو گئی ہیں۔ ریاست میں اس کے بعد بدلے سیاسی منظرنامے میں جہاں کئی سیٹوں پر نئے فارمولے ابھرنے لگے ہیں تو کئی پارٹیوں کے سامنے نئے چیلنجز آ کھڑے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
آجسو نے شروع میں بی جے پی سے 17 سیٹیں مانگی تھیں۔ آجسو لیڈر بھی کہتے ہیں کہ پارٹی نے ان سبھی سیٹوں پو دعویداری کی تھی، جس میں گزشتہ الیکشن میں یا تو پارٹی پہلے مقام پر رہی تھی، یا پھر دوسرے مقام پر۔ اس کے باوجود دونوں کے درمیان اتحاد کو لے کر اتفاق نہیں بن سکا۔
Published: undefined
ذرائع کے مطابق بی جے پی قیادت اس الیکشن میں آجسو کو 9 سیٹیں اور اس کے بعد 13 سیٹیں دینے کو رضامند تھی۔ بات نہیں بن پانے کی حالت میں دونوں پارٹیوں کی راہیں جدا ہو گئیں اور دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے امیدواروں کو اس الیکشن میں کئی سیٹوں پر آمنے سامنے اتار دیئے۔ آجسو اب تک 18 امیدواروں کی فہرست جاری کر چکی ہے جس میں 6 ایسی سیٹیں ہیں جہاں بی جے پی کے امیدوار انتخابی میدان میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایک لیڈر کے مطابق آجسو کی اس انتخاب میں امیدیں بڑھ گئی تھیں، جسے پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ اس درمیان دیگر پارٹیوں سے ٹکٹ کٹنے سے ناراض لوگوں کی پہلی پسند بھی آجسو بنی جس کا فائدہ آجسو قیادت نے بھرپور طریقے سے اٹھایا۔
Published: undefined
چھترپور سے بی جے پی کے سینئر لیڈر رادھا کرشن کشور کو اتار کر بی جے پی کو حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ آجسو نے پانچ ایسی سیٹوں پر بھی امیدوار اتار کر بی جے پی کو سیدھے چیلنج دے دیا ہے جو فی الحال بی جے پی کے قبضے میں ہیں۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ گزشتہ الیکشن میں آجسو نے آٹھ سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے، جس میں سے پانچ سیٹوں پر اسے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس ریزلٹ سے پرجوش اور گزشتہ پانچ سالوں میں ریاستی حالات سے پرجوش آجسو نے انتخابی تیاری کی اور تنظیم کو وسعت دی تھی۔
Published: undefined
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ بی جے پی سے ٹکٹ ملنے کی آس میں بیٹھے لیڈروں کے ٹکٹ کٹنے کے بعد ان کی پسند آجسو رہی، جس کی وجہ آجسو کے ذریعہ امیدواروں کے اعلان کو تاخیر سے کرنا اور بی جے پی کے ساتھ رہی دوستی کو مانا جا رہا ہے۔ کوڈرما سے بی جے پی ضلع پریشد سربراہ شالنی گپتا آجسو کے ساتھ ہیں جب کہ پاکوڑ سے جے ایم ایم کے سابق رکن اسمبلی عقیل اختر آجسو کے امیدوار ہوں گے۔ ایسے میں کئی سیٹوں پر سیدھی لڑائی سہ رخی بن گئی ہے۔
Published: undefined
بہر حال، آجسو کے کارکنان باہر سے آئے امیدواروں کا کتنا ساتھ دیتے ہیں، یہ تو الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن اتنا طے ہے کہ بی جے پی سے دوستی ٹوٹنے کے بعد آجسو نے کئی سیٹوں پر الیکشن ماحول بدل دیا ہے اور جس کا بی جے پی کو زبردست نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ 81 رکنی جھارکھنڈ اسمبلی کے الیکشن کے لیے 30 نومبر سے 20 دسمبر کے درمیان پانچ مراحل میں ووٹنگ ہونی ہے۔ نتائج 23 دسمبر کو برآمد ہوں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined