نئی دہلی واقع کناٹ پیلس کے سینٹرل پارک میں اردو اکادمی کی جانب سے منعقد ہونے والا پروگرام ’جشن وراثت اردو‘ میں مختلف نوع کے اسٹال لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف جہاں رنگا رنگ ادبی وثقافتی پروگرام سے لوگ لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مختلف قسم کے اسٹال پر آرٹس کے بہترین نمونے لوگوں کو خوب لبھا رہے ہیں، ’جشن وراثت اردو‘ میں لگے اردو اکادمی دہلی کے بک اسٹال سے کافی تعداد میں لوگ کتابیں خرید رہے ہیں۔
’جشن وراثت اردو‘ میں اردو اکادمی کے علاوہ کسی دوسرے ادارے کی کتابوں کااسٹال نہیں ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کے لیے ایک طرح کا جواب ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ اب اردو کتابوں کو خریدنے والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک اسٹال سے سیکڑوں کی تعداد میں کتابوں کا فروخت ہونا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کا براہ راست حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
Published: 15 Nov 2018, 2:09 PM IST
خواب تنہا کلیکٹو اسٹال پر جس طرح سے اہم شخصیات کی تصویریں لگائی گئی ہیں، وہ بھی ایک تاریخی کارنامہ کہا جائے گا۔ ادب وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ اسٹال بطور خاص توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ خطاطی آرٹس اسٹال پر فن خطاطی سے شغف رکھنے والے لوگ خطاطی کے بہترین نمونوں سے محظوظ ہو رہے ہیں، ساتھ ہی اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ لوگ خطاطی کے ماہرین سے اپنی پسند کی چیزیں لکھوا ئیں۔غیر اردو داں طبقہ میں اس فن کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنے ناموں کو اردو رسم الخط میں لکھوا کر سوغات کے طور پر لے جارہے ہیں۔ اردو اکادمی دہلی نے بھی اپنا اردو خطاطی کا اسٹال لگایا ہے۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو اکادمی دہلی بیک وقت کتنی جہتوں پر کام کر رہی ہے۔ یہ اسٹال ناظرین کی توجہ کا بھی مرکز ہے۔
اسی طرح سے آرٹی کائٹ اور ہنی ہینڈی کرافٹس کا بھی اسٹال ’جشن وراثت اردو ‘ کا ایک اہم حصہ ہے۔ جتنے بھی اسٹال ہیں ، وہ سب فنکاری کا ایک نمونہ ہیں۔ کیونکہ یہ جہاں دہلی شہرکی روایتی اور تہذیبی وراثت کا حصہ بنے ہوئے ہیں، وہیں دہلی کا جو جدید مزاج ہے اس کی بھی بھر پور ترجمانی ہو رہی ہے۔ کیونکہ اس نمائش کے بغیر ’جشن وراثت اردو ‘ کا مقصد مکمل نہیں ہوتا۔
’جشن وراثت اردو‘ میں فنون لطیفہ کے تمام پہلوؤں کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ’جشن وراثت اردو‘ ہماری گنگا جمنی تہذیب کا ایک اعلی نمونہ ہے۔ کناٹ پیلس تاجر وں و سیاح کی توجہ کا ایک اہم مرکز ہے، یہاں طول و عرض سے کافی لوگ آتے ہیں۔ اردو زبان وادب کی یہ چاشنی ہی ہے کہ لوگ سینٹرل پارک کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ بعض لوگ تو باہر سے صرف آواز سن کر سینٹرل پارک میں آگئے، اسے اردو زبان کی چاشنی سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔ اس جشن میں اردو تہذیب و ثقافت کی بھر پور نمائندگی ہورہی ہے۔اس سے جہاں ہماری تہذیبی وراثت کا تحفظ ممکن ہو سکا ہے، وہیں زبان و ادب کے فروغ میں ’جشن وراثت اردو‘ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس جشن میں تقریباً تمام ہی نسل کے شائقین کی بھر پور شرکت اراکین انتظامیہ کی توقعات کی تکمیل ہے ۔
اردو اکادمی نے ان تمام لوگوں کی دلچسپیوں کے موضوعات کو اپنے جشن کا اہم حصہ بنایا ہے۔ دفتری ایام میں بھی لوگوں کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ ادب وثقافت کا کوئی بھی پروگرام بہتر طریقے سے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو ناظرین و سامعین کا بھر پور تعاون حاصل رہے گا۔ جشن وراثت اردو نے لوگوں کی دلچسپی کا بھر پور خیال رکھا، اسی لیے یہ جشن بڑی خوبی او ر کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام تک کاسفر طے کر رہا ہے۔
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ’جشن وراثت اردو‘ میں شرکت کی اورجشن وراثت اردو کے پروگرام سے خوب لطف اندوز ہوئے۔انھوں نے تمام شرکا ءکے ساتھ اردو اکادمی کے کارکنان بشمول وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول اور اکادمی کے سکریٹری جناب ایس۔ یم۔ علی کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے پروگرام کی نوعیت وکیفیت پر خوشی کے ساتھ ساتھ اطمینان کابھی اظہار کیا۔اس کامیاب اور رنگا رنگ پروگرام کے تعلق سے دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے دہلی سرکار کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کیااور پروگرام کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔جشن وراثت اردو میں اکادمی کے ممبران نے بھی مختلف اوقات میں شرکت کی۔ اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول اور سکریٹری ایس۔ ایم۔ علی نے فنکاروں کا پھولوں سے استقبال کیا اور اردو اکادمی کا نشان بطور نشانی پیش کیں۔
Published: 15 Nov 2018, 2:09 PM IST
دوپہربارہ بجے جشن وراثت اردو کے پانچویں دن کا آغاز قصہ’’قصہ بچپن کے کھیلوں کا‘‘ سے ہوا۔ جسے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا۔ اس گروپ میں چھوٹے چھوٹے بچوں نے بہترین فنکاری کا ثبوت دیا۔ناظرین نے ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔
محفل قوالی کے تحت شاہد سمیع نیازی و ہمنوا (دہلی) نے سماں باندھ دیا۔ لوگوں کی فرمائش کا بھی اس گروپ نے خیال رکھا، جس سے موسم کے بنتے بگڑتے مزاج میں ایک الگ ہی قسم کی فضا کا سماں ہو گیا۔’پہلے آپ ‘کے عنوان سے اردو ڈراما اسٹیج کیا گیا،جسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے پیش کیا۔اس ڈرامے کا مرکزی موضوع دو الگ الگ مذہب کے ماننے والے گہرے دوست آپس میں کس طرح سے دو لوگوں کے اکسانے پر ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ آخر میں جب دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے جاتے ہیں اورایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو بات بات میں ایک دوسرے کے لیے دل میں دبی محبت پھر سے باہر آجاتی ہے اور وہ دوبارہ سے اسی طرح سے دوست بن جاتے ہیں۔یہی اس ڈرامے کا مرکزی موضوع ہے۔ اس میں ڈارامے میں ہمیں لکھنو ی تہذیب کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔ ڈراما’پہلے آپ‘ کو نئے فنکاروں نے بہترین انداز میں پیش کیا۔موجودہ سماج میں سیاست نے یہی کام کیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں اور بھائی چارہ کا ماحول بنائے رکھیں۔ گویا کہ یہ ڈراما موجودہ حالات پر ایک قسم کا طنز ہے۔ اس کے بعد پے در پے دو شام غزل کے پروگرام منعقد ہوئے۔ جس میں پہلی محفل غزل کو زلفی خان صابری (دہلی)نے اپنی خوبصورت آواز میں محفل کو اور بھی پر کشش بنا دیا اور جگجیت سنگھ کی یاد تازہ کردی۔ اس کے بعد کوچی سے تشریف لائیں غزل گلوکارہ ستارہ (کوچی)نے اپنے پسندیدہ کلام کو سنا یا، ساتھ ہی لوگوں نے کچھ فرمائشیں بھی کیں، جس کا دونوں فنکاروں نے بطور خاص خیال رکھا۔چونکہ یہ وہ فنکار ہیں جن سے لوگ واقف ہیں،ایسے میں فرمائش کرنا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔
شام ڈھلتے ڈھلتے شام غزل کے تحت دہلی کی معروف غزل گلوکارہ رادھیکا چوپڑانے اپنی آواز کا وہ جادو بکھیراکہ کناٹ پیلس کا سینٹرل پارک تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ آخر میں محفل قوالی کے تحت اسلم وارثی و ہمنوا اور ان کے گروپ نے قوالی سے رات کو اور بھی پر نور بنا دیا۔اس طرح سے گلابی موسم میں لوگوں نے قوالی کا خوب لطف لیا۔ جشن وراثت اردو کے پانچویں دن مختلف معزز شخصیات کے علاوہ ادب و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
Published: 15 Nov 2018, 2:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Nov 2018, 2:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز