سری نگر: وادی کشمیر میں مواصلاتی نظام پر جاری قدغن سے جہاں لوگ گوناگوں مشکلات سے دوچار ہیں وہیں یہاں 'خبروں' کے کال سے صحافیوں کا کام بھی مشکل بن گیا ہے۔ وادی کشمیر کو خبروں کا گڑھ مانا جاتا تھا کیونکہ تشدد زدہ زون ہونے کے باعث یہاں خبریں فراواں ہوتی تھیں لیکن گزشتہ قریب دو ماہ سے مواصلاتی نظام پر جاری پابندی، مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈران کی نظربندی و گرفتاری اور دیگر قدغنوں کی وجہ سے یہاں اب صحافیوں کے لئے ایک خبر تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
ایک مقامی صحافی نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ مواصلاتی نظام پر جاری پابندی اور مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈران کی نظربندی و گرفتاری کی وجہ سے یہاں خبر تلاش کرنا ہمارے لئے کارے دارد والا معاملہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'یہاں خبریں فراواں ہوتی تھیں لیکن اب چونکہ مواصلاتی نظام ہی بند ہے اور مین اسٹریم و علیحدگی پسند لیڈر نظربند یا پولس حراست میں ہیں لہٰذا خبر تلاش کرنا کارے دارد والا معاملہ بن گیا ہے'۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سرکاری ذرائع جو معاملات پر کھل کر بات کرتے تھے آج کل کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ جب بھی ہم دفتر کے لینڈ لائن نمبرات یا میڈیا سنٹر کے موبائل فون سے کسی سرکاری افسر کو فون کرتے ہیں تو وہ کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارا کام مشکل بن جاتا ہے'۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
ایک اور صحافی جو ایک نیوز ایجنسی کے ساتھ وابستہ ہے، نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس قدر مشکلات کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جس قدر آج کل کرنا پڑرہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'میں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک نیوز ایجنسی میں نمائندے کی حیثیت سے کام کررہا ہوں لیکن جس قدر خبریں تلاش کرنے میں آج کل مشکلات کا سامنا ہے پہلے کبھی نہیں تھا، مواصلاتی نظام پر جاری پابندی سے معلوم نہیں ہورہا ہے کہاں کیا ہورہا ہے اور اس کے علاوہ سیاسی لیڈر بھی نظر بند ہیں جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیاں بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں جو خبروں کی قحط سالی کا ایک اور بڑا سبب ہے'۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
موصوف صحافی نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے قائم میڈیا سینٹر میں بیٹھے صحافی ایک دوسرے سے ہی خبریں معلوم کرنے کے لئے 'کوئی خبر نہیں ہے' کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'انتطامیہ کی طرف سے قائم شدہ میڈیا سینٹر میں صحافی دن بھر بیٹھے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے خبریں معلوم کرنے کے لئے "خبرا ما چھ" یعنی کوئی خبر نہیں ہے کو دوہراتے رہتے ہیں'۔ ایک نوجوان صحافی نے بتایا کہ سوشل میڈیا خبریں حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، چونکہ اہلیان کشمیر گزشتہ دو مہینوں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے سے قاصر ہیں یہ خبروں کے کال کا ایک بڑا وجہ ہے۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
انہوں نے کہا کہ 'کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا تھا تو مقامی لوگ سٹیزن جرنلسٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے مذکورہ واقعہ کی تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے تھے۔ ہم ان سٹیزن جرنلسٹس سے رابطہ قائم کرکے تفصیلی خبریں کرتے تھے۔ اب چونکہ انٹرنیٹ گزشتہ دو ماہ سے معطل ہے خبروں کی ترسیل بھی بری طرح سے متاثر ہے'۔ تاہم وادی کشمیر میں موجودہ حالات کے چلتے مقامی اخباروں کی سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک مقامی روز نامے کے مدیر نے بتایا کہ یہاں اخباروں کی سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
انہوں نے کہا ’مواصلاتی پابندی کے بیچ چونکہ اخبار ہی لوگوں کے لئے معتبر خبروں کا وسیلہ ہے لہٰذا اخباروں کی سرکولیشن میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے‘۔ موصوف مدیر نے مزید کہا کہ یہاں ابھی بھی لوگ زیادہ تر اردو اخبار ہی پڑھتے ہیں لہٰذا اردو اخباروں کی سرکولیشن میں زیادہ ہی اضافہ ہورہا ہے۔ وادی میں ابھی بھی بیشتر لوگ اردو اخبار پڑھنا ہی پسند کرتے ہیں اور ہر دس اخبار پڑھنے والوں کے ہاتھوں میں اردو زبان کے اخبار ہی دیکھے جاتے ہیں۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کی طرف سے سری نگر کے ایک نجی ہوٹل میں ایک میڈیا سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ یہ میڈیا سنٹر وادی میں موجود مقامی و غیر مقامی صحافیوں اور مقامی میڈیا اداروں کے لئے آکسیجن جیسا ثابت ہورہا ہے۔ میڈیا سنٹر جہاں صحافیوں اور میڈیا اداروں کے لئے انٹرنیٹ کنکشن سے لیس 9 کمپیوٹرس اور کالنگ کے لئے موبائل فون دستیاب رکھے گئے ہیں، میں صبح سے رات دیر گئے تک صحافیوں اور مقامی اخبارات کے ملازمین کو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Oct 2019, 8:10 PM IST