سری نگر: وادی کشمیر سے شائع ہونے والے بیشتر اردو اور انگریزی روزنامے منگل کے روز سرکردہ صحافی سید شجاعت بخاری کی ہلاکت کے خلاف بطور احتجاج ’اداریہ‘ کے بغیر شائع ہوئے۔ ان روزناموں نے ’اداریہ‘ کی جگہ خالی چھوڑی تھی۔
مبصرین کے مطابق وادی میں اخبارات کی اشاعت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جب اخبارات ’اداریہ‘ کے بغیر شائع ہوئے۔ کشمیری صحافیوں نے پیر کے روز شجاعت بخاری کی ہلاکت کے خلاف پریس کالونی میں خاموش احتجاج کیا تھا۔ احتجاج میں شامل صحافیوں جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، نے بعدازاں پریس کالونی سے تاریخی گھنٹہ گھر لال چوک تک پیدل مارچ کیا۔
ایک صحافی نے بتایا کہ خاموش احتجاج کے بعد کشمیر سے شائع ہونے والے اردو اور انگریزی روزناموں کے مدیران نے اپنے اخبارات کے منگل کے شمارے میں بطور احتجاج ’اداریہ‘ کی جگہ خالی چھوڑنے کا فیصلہ لیا۔ یونس سلیم نامی اردو اخبارات کے قاری نے یو این آئی کو بتایا ’منگل کی صبح اپنے گھر میں اخبار پڑھنے کے دوران جب میری نظر اداریہ کی خالی جگہ پر پڑی تومیں یہ سمجھا کہ شاید یہ غلطی سے جگہ خالی رہ گئی ہے۔ لیکن دفتر میں دوسرے اخبارات کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے سبھی اخبارات میں اداریہ کی جگہ خالی دیکھی۔ معلوم کرنے پر یہ پتہ چلا کہ اداریہ کی جگہ شجاعت صاحب کی ہلاکت کے خلاف بطور احتجاج خالی چھوڑی گئی ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا ’میں گذشتہ قریب دو دہائیوں سے اخبارات باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ میں نے اخبارات میں پہلی بار اداریہ کی جگہ خالی دیکھی‘۔
اردو روزنامہ ’آفتاب‘ کے مدیر ظہور ہاشمی نے یو این آئی کو بتایا کہ اخبارات میں اداریہ کی جگہ خالی چھوڑنے کا فیصلہ مقامی مدیروں کی تنظیم ’دی کشمیر ایڈیٹرس گلڈ‘ نے باہمی اتفاق رائے سے لیا تھا۔ انہوں نے بتایا’مقامی اخبارات کے مدیروں نے اپنے ساتھی شجاعت بخاری کی ہلاکت کے خلاف بطور احتجاج آج اپنے اخبارات میں اداریہ کی جگہ خالی چھوڑنے کا فیصلہ لیا تھا‘۔ایک رپورٹ کے مطابق وہ مدیران جو ’کشمیر ایڈیٹرس گلڈ‘ میں شامل نہیں ہیں، انہوں نے بھی شجاعت بخاری کی ہلاکت کے خلاف بطور احتجاج اپنے اخبارات میں اداریہ کی جگہ خالی چھوڑی۔
قریب تین دہائیوں تک میڈیا سے وابستہ رہنے والے شجاعت بخاری کو 14 جون کی شام نامعلوم بندوق برداروں نے پریس کالونی سری نگر میں اپنے دفتر کے باہر نزدیک سے گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کردیا۔ شجاعت بخاری انگریزی روزنامہ ’رائزنگ کشمیر‘، اردو روزنامہ ’بلند کشمیر‘، کشمیری روزنامہ ’سنگرمال‘ اور ہفتہ وار اردو میگزین ’کشمیر پرچم‘ کے مدیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے کئی برسوں تک قومی انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد بالآخر 2008 میں ’رائزنگ کشمیر‘ شروع کیا تھا۔
شجاعت بخاری نے ’رائزنگ کشمیر‘ کی کامیاب شروعات کے بعد ’بلند کشمیر‘، ’سنگرمال‘ اور ’کشمیر پرچم‘ شروع کیا۔ ان کے حوالے سے خاص بات یہ تھی کہ وہ تینوں زبان (انگریزی، اردو اور کشمیر) میں لکھتے تھے۔ وہ کشمیری زبان کی ترقی و ترویج کے لئے بھی سرگرم تھے۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ’کشمیر ٹائمز‘ سے بحیثیت رپورٹر کیا تھا۔ وہ 1997 سے 2012 تک ’دی ہندو‘ کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ مختلف بین الاقوامی سطح کے میڈیا اداروں بالخصوص بی بی سی کے لئے لکھتے تھے۔ شجاعت بخاری نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر پر دنیا کے کئی ممالکوں میں ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ ان کا شمار وادی کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصریں میں ہوتا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق شجاعت بخاری پر اس سے قبل بھی تین حملے کئے گئے تھے۔ 2006 میں قاتلانہ حملے کے بعد انہیں پولیس تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ وادی میں 1990 میں شروع ہوئی مسلح شورش کے بعد شجاعت بخاری پریس کالونی سری نگر میں قتل کئے جانے والے تیسرے صحافی بن گئے ہیں جبکہ وادی میں قتل ہونے والے پندرہویں صحافی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined