سری نگر: مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے مزاحمتی قائدین اور جماعت اسلامی کے لیڈران و سرگرم کارکنوں کی گرفتاری اور دفعہ 35 اے کے خلاف مبینہ طور رچائی جا رہی سازشوں کے خلاف دی گئی ’کشمیر بند کال‘ کے باعث اتوار کے روز وادی کے طول و عرض میں معاملات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے۔
یو این آئی کو موصولہ اطلاعات کے مطابق مشترکہ ماحمتی قیادت کی طرف سے دی گئی کشمیر بند کال کے پیش نظر وادی کے طول وعرض میں مکمل ہڑتال رہی جہاں شہر سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک، بڈشاہ چوک ، مائسمہ ، ریگل چوک، ہری سنگھ ہائی سٹریٹ، بٹہ مالو، ڈل گیٹ، ریذیڈنسی روڑ، مولانا آزاد روڑ وغیرہ میں تمام کاروباری ادارے مقفل اور سڑکوں سے چھاپڑی فروش غائب رہے اور ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل نہ ہونے کے برابر رہی وہیں ریڈیو کشمیر سری نگر کراسنگ سے لے کر ہری سنگھ ہائی سٹریٹ تک پھیلے تین کلومیٹر طویل مشہور سنڈے مارکیٹ میں بھی سناٹا چھایا ریا۔
دریں اثنا شہر خاص کے نوہٹہ، مہاراج گنج، خانیار، رعناواری، صفاکدل وغیرہ میں حکام نے دفعہ 144 کے تحت پابندیاں عائد کی تھیں جس کے وجہ سے ان علاقوں میں معمولات زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے۔ ان علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کوتعینات کیا گیا تھا تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جاسکے۔ وادی کے دیگرضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی ہڑتال کی وجہ سے بازاروں میں ہو کا عالم چھایا رہا تمام دکانات بند رہے جبکہ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل غائب رہی۔ دریں اثنا قومی شاہراہ پر واقع بانہال علاقے میں بھی مزاحمتی قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال کال کے پیش نظر مکمل ہڑتال رہی۔ بازار بند جبکہ ٹریفک معطل رہا۔
قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کی شب کو لبریشن فرنٹ چیرمین یاسین ملک اورجماعت اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری اور دفعہ35 اے کے خلاف رچائی جارہی مبینہ سازشوں کی مذمت کرتے ہوئے مشترکہ مزاحمتی قیادت نے یک روزہ کشمیر بند کال دی تھی۔ قیادت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ حکمرانوں کے اس طرح کے حربے یہاں کی مزاحمتی قیادت کو اپنے جائز مطالبے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد سے باز رکھنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔
Published: 24 Feb 2019, 4:10 PM IST
مزاحمتی قیادت نے اپنے مشترکہ بیان میں ر یاست جموں کشمیر کے مستقل اور پشتنی باشندگی قانون (دفعہ 35 اے ) کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ خوانی یا اس قانون کو عدالتی ذرائع سے کالعدم قرار دینے کے کسی بھی عمل کے شدید نتائج سے خبردار کرتے ہوئے ریاست کے تینوں خطوں کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اس طرح کی کسی بھی صورتحال کے خلاف بھر پور اور منظم احتجاج کے لئے تیار رہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت اور ہیئت کو بگاڑنے یا اس کی متنازعہ حیثیت کو زک پہنچانے کی کوششوں کے خلاف یہاں کے مزاحمت پسند عوام نے ماضی میں بھی اپنے بھر پور ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اب کی بار بھی وہ اس طرح کی کسی بھی کوشش کو بار آور ثابت نہیں ہونے دیں گے۔
قبل ازیں انتظامیہ نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کے دوران علیحدگی پسند اور مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے لیڈران و سرگرم کارکنوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاﺅن شروع کرکے قریب 150 لوگوں کو مختلف جیلوں میں مقید کردیا۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کردی۔ اچانک اٹھائے جانے والے ان اقدامات نے وادی بھر میں خوف و ہراس کا ماحول برپا کردیا ہے۔
وادی میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ مرکزی حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دفعہ 35 اے کو منسوخ یا علیحدگی پسند رہنماؤں کو وادی سے باہر منتقل کرسکتی ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ امکانی طور پر عدالت عظمیٰ معاملے (دفعہ 35 اے) کی سماعت پیر کو کرے گی۔
Published: 24 Feb 2019, 4:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Feb 2019, 4:10 PM IST