جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ابرابر احمد کو ان کے ذریعہ کیے گئے ایک شرمناک ٹوئٹ کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ ٹوئٹ انتہائی حد تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو چوٹ پہنچانے والا تھا جس کو دیکھتے ہوئے جامعہ انتظامیہ نے انھیں فوری اثر سے معطل کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے خلاف جانچ کا حکم صادر کر دیا ہے۔ حالانکہ ابرار احمد اپنی صفائی میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے لیا گیا اور وہ صرف ایک طنز تھا جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس صفائی کے باوجود لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور حیران ہیں کہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر اس قدر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے والا ٹوئٹ کیسے کر سکتا ہے۔
Published: undefined
دراصل اسسٹنٹ پروفیسر ابرار احمد نے 25 مارچ کو اپنے آفیشیل اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا "15 غیر مسلموں کو چھوڑ کر میرے سبھی طلبا پاس ہو گئے ہیں۔ اگر آپ سی اے اے کے خلاف تحریک کرتے ہیں تو میرے پاس سی اے اے کے حق میں 55 طلبا ہیں۔ اگر تحریک ختم نہیں ہوئی تو اکثریت آپ کو سبق سکھائے گی۔ کورونا کی وجہ سے آپ کی تحریک کے نشان مٹ گئے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ آپ کو مجھ سے نفرت کیوں ہے؟" اس ٹوئٹ کے بعد سے ہی ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو دھچکا پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ابرار احمد کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے تھے۔ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبا اور اساتذہ نے بھی ان کے اس ٹوئٹ کی پرزور مذمت کی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ 25 مارچ کو ہی شام میں انھوں نے اپنے ٹوئٹ پر صفائی پیش کی۔
Published: undefined
اپنے دوسرے ٹوئٹ میں ابرار احمد نے لکھا کہ "میرا ٹوئٹ سی اے اے کی مخالفت کو لے کر ایک طبقہ کے خلاف حکومت کے رویہ پر محض طنز تھا۔" اسی ٹوئٹ میں وہ آگے لکھتے ہیں کہ "نہ تو ایسا کوئی امتحان ہوا ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ صرف ایک ایشو کو سمجھانے کے لیے ٹوئٹ تھا، میں کسی سے تفریق نہیں کرتا۔" ابرار احمد کے ذریعہ صفائی پیش کیے جانے کے باوجود وہ لوگوں کے نشانے پر رہے اور بات یونیورسٹی تک پہنچ گئی۔ ٹوئٹ کی حساسیت اور ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی غیر ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے جامعہ نے انھیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں 26 مارچ کو ایک ٹوئٹ بھی کیا۔
Published: undefined
اپنے ٹوئٹ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ "ڈاکٹر ابرار نے امتحان میں 15 غیر مسلم طلبا کو فیل کرنے کی بات عوامی پلیٹ فارم پر کہی ہے جو فرقہ واریت اور نفرت پھیلانے والا ایک سنگین عمل ہے۔ یونیورسٹی نے جانچ مکمل ہونے تک انھیں معطل کر دیا ہے۔" جامعہ کے اس فیصلے کی چہار جانب تعریف بھی ہو رہی ہے۔ حالانکہ جامعہ کے کچھ طلبا اس بات کو لے کر اب بھی حیران ہیں کہ ابرار احمد نے اس طرح کا غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور غیر ذمہ دارانہ ٹوئٹ کس طرح کر دیا۔
Published: undefined
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اپنے ٹوئٹ کے لیے زبردست مذمت اور تنقید کا سامنا کر رہے ابرار احمد کا ٹوئٹر ہینڈل کام نہیں کر رہا ہے۔ اس سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنا ٹوئٹر ہینڈل ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ لیکن انھوں نے جو بھی ٹوئٹ کیا تھا اس کا اسکرین شاٹ مختلف نیوز پورٹل پر پہلے سے ہی ڈالا جا چکا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز