وزیر مالیات ارون جیٹلی اور آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) کے گورنر اُرجت پٹیل کے درمیان منگل کو ملاقات بھی ہوئی اور بات بھی ہوئی۔ لیکن دونوں طرف سے تلواریں ہاتھوں میں ہی نظر آئیں۔ اُرجت پٹیل نے بتایا کہ نقدی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور غیر بینکنگ مالیاتی کمپنیوں پر بھی دباؤ نہیں ہے، تو وزیر مالیات نے بھی کہہ دیا کہ ذرا دھیان رکھنا کہ حالات اور خراب نہ ہونے پائیں۔
آخر وزیر مالیات اور ریزرو بینک گورنر کی ملاقات کو لے کر اتنی دلچسپی کیوں تھی؟ دراصل کئی دنوں سے ریزرو بینک اور مرکزی حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی کی خبریں سرخیاں بنی ہوئی ہیں۔ اور انہی خبروں کے سایہ میں منگل کو پہلی بار وزیر مالیات ارون جیٹلی اور ریزرو بینک گورنر اُرجت پٹیل آمنے سامنے آئے۔
دہلی میں ہوئی مالی استحکام اور ترقیاتی کونسل یعنی ایف ایس ڈی سی کی میٹنگ میں اُرجت پٹیل نے حصہ لیا۔ وزیر مالیات کی صدارت میں ہوئی اس میٹنگ میں اُرجت پٹیل کے علاوہ آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ، سیبی چیئرمین اجے تیاگی اور وزارت مالیات کے سکریٹریوں نے حصہ لیا۔
Published: 30 Oct 2018, 9:09 PM IST
ذرائع بتاتے ہیں کہ یوں تو میٹنگ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا، لیکن کشیدگی محسوس کی جا سکتی تھی۔ اس کشیدگی کو ہوا پچھلے جمعہ کو ملی تھی جب اُرجت پٹیل کی سفارش پر تقرر کیے گئے آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ حکومت کو ریزرو بینک کی آزادی میں مداخلت نہیں دینی چاہیے۔ آچاریہ نے بھلے ہی اس لیکچر میں حکومت پر نشانہ سادھ کر ریزرو بینک اور مرکزی حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی اور کشیدگی کو برسرعام کر دیا تھا، لیکن ایف ایس ڈی سی میٹنگ سے ٹھیک پہلے وزیر مالیات کے ایک بیان سے جنگ بندی کی جگہ امن کا ماحول ختم ہونے کے آثار پیدا ہو گئے تھے۔
وزیر مالیات نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’جب ملک کے بینک بڑے پیمانے پر قرض بانٹ رہے تھے تو ریزرو بینک نے اسے نظر انداز کیا، اس سے بینک زبردست قرض میں ڈوب گئے۔‘‘ حالانکہ وزیر مالیات نے اس پورے معاملے کو 2008 سے 2014 کے دوران آر بی آئی کے طریقہ کار کا حصہ بتایا، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ایف ایس ڈی سی کی میٹنگ سے ٹھیک پہلے آر بی آئی کے طریقہ کار پر تبصرہ شاید ریزرو بینک کو ایک پیغام دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف ایس ڈی سی کی میٹنگ میں رسمی شروعات کے دوران کئی ایشوز پر بات ہوئی جس میں ریزرو بینک نے حکومت کو بتایا کہ ’’نقدی کا کوئی بحران نہیں ہے اور غیر بینکنگ مالی کمپنیوں پر دباؤ کے بھی اشارے نہیں ہیں۔‘‘ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس میٹنگ پر حال کے آئی ایل ایف ایس بحران کا سایہ تھا اور اس سے جڑی کئی کمپنیوں نے اپنے قرض ادا کرنے میں نااہلی ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد شیئر بازار میں ہنگامہ مچ گیا تھا اور ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت پر بحران کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریزرو بینک کی اس یقین دہانی پر حکومت نے یہی ہدایت دی کہ ’’ریزرو بینک کو یہ یقینی کرنا ہے کہ حالات بے قابو نہ ہونے پائیں۔‘‘
Published: 30 Oct 2018, 9:09 PM IST
لیکن بات اتنی سیدھی نہیں ہے۔ دراصل ریزرو بینک اس کے کام کاج میں حکومت کی بڑھتی مداخلت سے بے حد خفا ہے۔ آر بی آئی کی اس ناراضگی کو لے کر ریزرو بینک کے ملازمین بھی اپنے اعلیٰ افسران کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ریزرو بینک ملازمین ایسو سی ایشن نے پیر کے روز کہا تھا کہ ’’حکومت کو ریزرو بینک کی خود مختاری کم کرنے کی کوشش بند کرنی چاہیے۔‘‘ آل انڈیا ریزرو بینک ملازمین ایسو سی ایشن نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ ’’ہمارا ماننا ہے کہ یرزرو بینک کی خود مختاری کم کرنا تباہی بلانے جیسا ہے۔ حکومت کو اس سے بچنا چاہیے۔‘‘
ریزرو بینک ملازمین کے میدان میں اترنے سے حکومت کی مشکلیں بڑھی ہیں۔ یوں تو اس سال کے شروع سے ہی ریزرو بینک اور حکومت کے درمیان کم از کم نصف درجن ایشوز پر رسہ کشی جاری ہے۔ اس رسہ کشی کے درمیان آگ میں گھی کا کام کیا تھا ریزرو بینک کے بورڈ میں نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے طور پر ایس گرومورتی کی تقرری نے۔ ایس گرومورتی نے عہدہ سنبھالتے ہی آر بی آئی کے کام میں مداخلت شروع کر دیا جس سے حالات بے حد خراب ہو گئے۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ کو سرعام کہنا پڑا تھا کہ ’’حکومت کے فیصلے کئی بار ٹی-20 میچ کی طرح ہوتے ہیں۔ لوک سبھا، اسمبلی یا وسط مدتی انتخابات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ انتخاب قریب آتے ہی منشور میں کیے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جب یہ ممکن نہیں ہوتا تو دوسرے متبادل تلاش کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ریزرو بینک ٹیسٹ میچ کھیلنے والا رخ اختیار کرتا ہے اور ہر سیشن میں جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے کھلاڑی ٹکے رہتے ہیں تاکہ اگلا سیشن بھی جیت سکیں۔‘‘
میٹنگ ختم ہو گئی، باتیں بھی ہو گئیں، لیکن آنے والے دنوں میں حکومت اور ریزرو بینک کے رشتے اچھے ہو پائیں گے، اس کا اشارہ تو فی الحال نہیں ملا ہے۔
Published: 30 Oct 2018, 9:09 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Oct 2018, 9:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز