تین دہائی قبل (بابری مسجد انہدام سے پہلے) کسی شخص کو شاذو نادر ہی ’جے شری رام‘ کہتے سنا گیا ہوگا یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی بھیڑ میں ’جے شری رام‘ کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر 6 دسمبر 1992 ہندوستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب فرقہ پرستوں کی بھیڑ نے بابری مسجد پر چڑھائی کر کے صدیوں پرانی اس تاریخی عبادت گاہ کو مسمار کرنے کے لیے ہتھوڑا چلایا تب ’رام‘ کا نام استعمال کرکے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا جا رہا تھا اور تبھی سے فرقہ پرست عناصر نے اس نعرے کو اقلیتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا جو آج ایک فیش بن گیا ہے اور جہاں بھی کمزور اور بے جان کے سامنے اپنی ’مردانگی‘ دکھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہاں ’جے شری رام‘ بول کر حملہ کرتے ہوئے توڑ پھوڑ شروع کردی جاتی ہے۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
’جے شری رام‘ کا نعرہ لگا کرعبادت گاہ کو مسمار کرکے بہادری سمجھنے والے فرقہ پرست عناصر آج اس سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ ایک بیت الخلاء کو توڑنے کے لئے بھی ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ حال ہی میں فرقہ وارانہ طور پر حساس اترپردیش کے سہارنپور میں بس اڈے پر بنے ایک عوامی بیت الخلاء کو توڑنے پہنچی بھیڑ نے ’جے شری رام‘ کے نام پر یہ کام کیا۔ بیت الخلاء پر پڑنے والے ہر ہتھوڑے کی تھاپ پر لوگ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ پتہ چلا کہ ’راشٹر بھکتی‘ کے ٹھیکیدار بجرنگ دل کے کارکنوں نے یہ ’بہادری‘ بھرا کام کیا تھا۔ ان کی دلیل تھی کہ بیت الخلاء ایک مندر کے برابر میں تھا اس لئے اسے توڑنا ضروری تھا۔ حالانکہ مندر میں آنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے پجاری کو بھی بیت الخلا پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
اس تازہ واقعہ نے ان خود ساختہ راشٹر بھکتوں کی کم ظرفی اور گھٹیا سوچ کو اجاگر کیا ہے جنہیں پولیس انتظامیہ کا رول نبھانے میں مزہ آنے لگا ہے۔ مجموعی طور پر یہ رویہ انتہائی خوفناک ہے اس لئے کہ وہ کبھی بھی کسی کے بھی گھر میں گائے کا گوشت تلاش کرنے کے لئے گھس جاتے ہیں اور کبھی کسی غریب کے گھر میں ’ٹھاکر‘ لکھے جوتے نکلوا کر اسے پولیس تک پہنچاتے ہیں اور کبھی خود بیت الخلاء توڑنے کے لئے ہتھوڑا اٹھا لیتے ہیں۔ یہ رویہ نظم ونسق کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عام محاورہ نہیں ہے بلکہ یہ خود کو نظم ونسق سمجھنے کا مسلسل سامنے آنے والا ایک تجربہ ہے اس لئے یہ لوگ پولیس یا انتظامی نظام میں شکایت کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ ان کے لئے اب ان کا نظریہ ہی آئین ہے۔ ان کا رہنما ہی ملک ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی کہنا غداری ہے۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
اس واقعہ کا سب سے خطرناک پہلو ایک بیمار ذہنیت ہے جو اس معاملے میں سامنے آئی ہے۔ بیت الخلاء توڑنا ہی تھا تو اس کے لئے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا کسی اور نعرے سے یہ کام نہیں ہوسکتا تھا؟۔ ایسے لوگوں کے طرزعمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر بیت الخلاء توڑنے سے زیادہ اشتعال انگیز نعرے لگا کر تشدد بھڑکانا تھا مگرعلاقے کے دانشمند عوام نے فرقہ پرستوں کی اشتعال انگیزی پر کوئی ردعمل کا اظہار نہ کرکے علاقے کے امن کو برقرار رکھنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ ایسے حالات میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان جاہل فرقہ پرستوں کو اتنی ہمت کہاں سے ملتی ہے جو خود کو پولیس اور آئین سے بالاتر سمجھ کر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اس سوال کا جواب ہر ہندوستانی کو معلوم ہوگا مگر سب کو اپنی جان پیاری ہے۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
دیکھا جاے تو پچھلے کچھ عرصہ میں فرقہ پرستوں کو متحد کرنے اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے’جے شری رام‘ جیسے نعروں کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ کچھ دن پہلے ایسے ہی نعروں اور گالی گلوچ کے درمیان ایک موٹر سائیکل ریلی نکلی تھی۔ ظاہر ہے یہ وہ ’رام ‘ نہیں ہیں جن سے لوگوں کی عقیدت ہے، یہ وہ رام ہیں جن کا استعمال ایک فرقہ پرست بھیڑ کو تشدد بھڑکانے کے ہتھیار کے طور پر ہوتا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ جب لوگ ’رام‘ کے اس طرح کے استعمال پر انگلی اٹھاتے ہیں تو انہیں ہندو مخالف، رام مخالف کہنے کے ساتھ ساتھ ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ صاف طور پر یہ بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کو بہت راس آتا ہے کیوںکہ اس سے انہیں غیر ہندو کو الگ کرنے یا انہیں غیر بتانے کا موقع ملتا ہے۔ ’جے شری رام‘ ایک روایتی نعرہ ہے جو اب تشدد بھڑکانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
ان حالات میں انسانیت کے دشمن فرقہ پرستوں کو سمجھانا ہوگا کہ جب روایت کو سیاست کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جب مذہبیت اورعقیدت کو اپنے سیاسی مفاد کے لئے تشدد میں بدلا جاتا ہے تو رام کا نام بھی چھوٹا ہوجاتا ہے۔ ’جے شری رام‘ ایک ہتھوڑا بن جاتا ہے جس کا استعمال بیت الخلاء توڑنے میں نعرے کی طرح بھی کیا جاسکتا ہے۔ سچ تویہ ہے کہ اس فعل نے ’رام‘ پرعقیدت رکھنے والوں کو مایوس کیا ہے۔ ان فرقہ پرستوں کے قائدین کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ چند بگڑے لوگوں کی وجہ سے آج جہاں تک بھی دیکھا جائے ملک کو شدید منحوس بحران کا سامنا ہے۔ فرقہ واریت کو بعض مفاد پرست عناصر کی جانب سے لگاتار ہوا دی جا رہی ہے اور فرقہ واریت کا یہ وائرس اب ملک کے دیہی علاقوں تک پہنچ چکا ہے جبکہ پہلے یہ صرف شہروں میں ہوا کرتا تھا۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
آخر یہ سب کیوں اور کب سے ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ ہم نے تو یہی سنا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال دیتے تھے مگر اب ہندوستان میں اچانک کیا ہوگیا جب لوگ ہندو اور مسلمان کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ حکمرانوں کی بات نہ بھی کریں تب بھی پچھلے کچھ سالوں میں اصل مسائل کو نظر انداز کر کے فرقہ واریت کے موضوع پر معتبر چینلوں پر جو بحثیں ہوئیں انہوں نے فرقہ پرستی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ انتہا پسند اپنے نقطہ نظر کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی ’راشٹر بھکتی‘ سمجھنے لگے ہیں۔ انتہا پسند در حقیقت، مخالف یا متحارب نقطہ نظر کو برداشت نہیں کر سکتے، اسی لیے وہ اسے نیست و نابود کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہر انتہا پسند فرقہ پرست ہوتا ہے اور ہر فرقہ پرست انتہا پسند۔ یہ لوگ رنگا رنگی کے خلاف ہیں اور اختلافات کو برداشت کرنے کی بجائے طاقت سے مٹانا چاہتے ہیں۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Jan 2021, 5:11 PM IST