’’کاس گنج فساد کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا بلکہ یہ ایک منظم فساد تھا اور اس حقیقت کی تصدیق کاس گنج فسا د سے جڑے تمام واقعات کرتے ہیں۔ اس فساد میں اکثریتی طبقہ کی ایک بھی دوکان کو نقصان نہیں ہوا ، ایک بھی مندر کو نقصان نہیں پہنچا جبکہ اس کے بر عکس اقلیتی طبقہ کی 27دوکانیں نذر آتش ہوئیں، دو مساجد کی بے حرمتی کی گئی اور مسجد کے اندر نہ صرف آگ لگائی بلکہ جو ملا اسے لوٹ لیا، لیکن جب اس سارے فساد کو گرفتاری کی روشنی سے دیکھا جائے توفساد کے بعد 123افراد گرفتار کئے گئے ہیں، ان میں سےگرفتار ہونے والے 87 افراد کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے جبکہ باقی افراد کا تعلق اکثریتی طبقہ سے ہے۔ یعنی جس طبقہ کی دوکانیں جلیں ، مساجد کو نقصان پہنچایا گیا ان کے ہی لوگ زیادہ گرفتار بھی ہوئے اور جن کا کوئی نقصان نہیں ہوا ان کے لوگ بھی کم گرفتار ہوئے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ چندن کے قتل کے تعلق سے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی تعداد صرف 23ہے یعنی باقی جو لوگ گرفتار کئے گئے ہیں ان کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مخالف طبقہ کا کوئی نقصان ہوا ہی نہیں ، اس حققیت پر لیکچرار اور ’یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ ‘ تنظیم کی رکن بنوجیوتسنا نے روشنی ڈالی ۔ واضح رہے تنظیم ’یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ ‘ کی ایک ٹیم نے فساد کی حقیقت جاننے کی غرض سے کاس گنج کا ایک دن کا دورہ کیا تھا۔ اس تنظیم کے ارکان نے پریس کلب، نئی دہلی میں رپورٹ پیش کی اور میڈیا کے ساتھ اپنے تجربات کو شیئر کیا۔
Published: 05 Feb 2018, 7:25 PM IST
اس ٹیم کے اہم رکن اور صحافی امت سین گپتا کا کہنا تھا کہ کاس گنج میں فرقہ وارانہ فساد کی کوئی تاریخ نہیں ملتی صرف بابری مسجد انہدام کے وقت بہت معمولی سا فساد ہو اتھا۔ انہوں نے کہا یہ ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے کہ چندن کا قتل کس نے کیا اور کہاں کیا ۔ سلیم جس کے اوپر چندن کو قتل کرنے کا الزام ہے اس کے تعلق سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت شریف طبعیت کا شخص ہے۔ امت نے بتایا کہ اکثریتی طبقہ کی کسی بھی دوکان یا مکان کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اقلیتوں کی جلتی دوکانوں کو بجھایا اور فائر بریگیڈ کو بلایا۔ واضح رہے مساجد کی بے حرمتی کے معاملے میں کوئی ایف آئی درج نہیں کی گئی۔
تنظیم کی ایک اور رکن راکھی سہگل نے پولس کے متعصب کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کے موٹر سائیکل پر آئے لوگوں نے اپنی 70موٹر سائیکلیں وہیں چھوڑ گئے تھے جبکہ پولس یہ تعداد 35بتارہی ہے لیکن کسی بھی موٹرسائیکل مالک کی نہ تو نشاندہی کی اور نہ ہی کوئی ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ انہوں نے بتایا کے شیروانی بوٹ ہاؤس کے مالک کے لاکھ کہنے پر بھی ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی۔ راکھی نے بتایا کہ اس خراب ماحول میں بھی اقلیتی طبقہ کے لوگوں نےمندر کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ تنظیم کے ایک اور رکن ندیم خان پولس کے متعصب رویہ کے دو معاملوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ محسن نام کے شخص کے دیئے گئے بیان پر سلیم کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ محسن نے بیان دیا کہ چندن اور نوشاد پر ایک ہی جگہ پرگولی سے حملہ کیا گیا ، لیکن نوشاد جواس وقت علی گڑھ میں زیر علاج ہیں انہوں نے محسن کے اس بیان کی تردید کی ہے۔ پولس کےمتعصب رویہ کے تعلق سے ندیم نے ایک اور واقعہ بتایا ’’ایک اسکوٹی پر دو دوست سوار تھے جن کوپولس نے گرفتار کیا ۔ ایک کا نام آصف تھا اور ایک کا نام پردیپ ، لیکن دونوں کو گرفتاری کے بعد جو دفعات ان پرلگائی گئی ہیں ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آصف پرجو دفعات لگائی گئیں ان کی سزا 25سال تک ہو سکتی ہے یعنی ان پر دفعہ 405اور 307لگائی گئیں ہیں جبکہ پردیپ پر دفعہ 121لگائی گئی ہے جس میں صرف جذبات بھڑکانے کا الزام ہے۔
Published: 05 Feb 2018, 7:25 PM IST
اس موقع پر سینئر صحافی ارملیش نے اس بات پرتشویش کااظہار کیا کہ اب سیاسی پارٹیوں نے ایسے معاملوں میں بولنے سے پرہیز کرنا شروع کر دیا ہے ۔ وہ نہیں چاہتیں کہ وہ اقلیتوں کے ہمدرد کے طور پر نظر آئیں یعنی انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ نرم ہندوتوا ہی ان کی سیاسی نیا کو پار لگا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا یہ سوچ انتہائی تشویشاناک ہے کہ غلط کو غلط کہنے سے سیاسی پارٹیاں پرہیز کر رہی ہیں اور یہ سوچ جمہوریت کے لئے بہت تباہ کن ہوگی۔ واضح رہے اس تنظیم نے بتا یا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی کوئی سیاسی رہنماوہاں گیا۔ جبکہ صرف بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ گئے اور انہوں نے بھی سوائے زہر پھیلانے اور لوگوں کو باٹنے کے علاوہ کوئی باتیں نہیں کیں۔
بنو جیوتسنا نے کہا کہ یہ فساد بہت منصوبہ بند تھا اور اس میں کاروباری برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ بازار میں آگ لگائی گئی ، مرحوم چندن گپتا کا تعلق بھی تجارتی برادری سے تھا اور اس کے قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والے سلیم بھی ایک کاروباری ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کاس گنج فساد بہت سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا اوراس کے باوجود بھی وہاں کے لوگوں میں بہت بھائی چارہ نظر آیا ۔
Published: 05 Feb 2018, 7:25 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Feb 2018, 7:25 PM IST