سپریم کورٹ میں 17 نومبر کو ایک ایسی عرضی پر سماعت ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی طرح ای سی آئی (الیکشن کمیشن آف انڈیا) کے لیے خود مختار سکریٹریٹ ہو، اپنا بجٹ ہو، تینوں کمشنروں کو یکساں حقوق ملیں (یعنی چیف الیکشن کمشنر) اور ضرورت پڑنے پر کمشنروں کو بھی ہٹانے کے لیے مواخذہ کا عمل اختیار کیا جائے۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے مرکز سے پوچھا کہ کیا وہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرس کو چننے میں اپنائے گئے طریقے یا اختیار کیے گئے پیمانوں کی تشریح کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
عرضی پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی بنچ نے مرکز کے سامنے کچھ فکر انگیز باتیں بھی رکھیں۔ عدالت عظمیٰ نے اسے پریشان کرنے والی بات کہی کہ ہندوستان اپنی آزادی کے 75 سال پورے کر چکا ہے لیکن چیف الیکشن کمشنر کبھی ایک خاتون نہیں بن پائی۔ عدالت نے یہ بات اپنی طرف سے یہ مشورہ دیتے ہوئے کہی کہ ہندوستان کے انتخابی کمیشن میں تقرری کے دوران جنسی تنوع بہت اہم ہے۔
Published: undefined
عدالت عظمیٰ نے اس دوران مرکز پر کچھ تلخ تبصرے بھی کیے۔ جسٹس کے ایم جوسف کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کوئی نظام نہیں ہے اور آپ اپنی طرح سے کام کر رہے ہیں۔ کیا یہ آئین بنانے والے لوگوں کی خواہشات کو مارنے کا کام نہیں ہے؟ آئین کہتا ہے کہ ایسی تقرریاں پارلیمنٹ کے ذریعہ کیے جانے والے قانون کے التزامات کے تحت ہونی چاہئیں، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined