قومی خبریں

مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے تعلق سے نکڑ پر بیٹھ کر باتیں کرنا کوئی جرم نہیں: بامبے ہائی کورٹ

این آئی اے کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین ہندوستان اور بیرون ہندوستان مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور وہ اس کا بدلا لینا چاہتے تھے۔

بامبے ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
بامبے ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس 

ممبئی: مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے تعلق سے نکڑ پر بیٹھ کر گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں، یہ تبصرہ آج یہاں بامبے ہائی کورٹ نے مہاراشٹر کے پربھنی شہر سے ممنوع تنظیم داعش کے ہم خیال ہونے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار مسلم نوجوان اقبال احمد کبیر احمد کی ضمانت عرض داشت پر سماعت کے دوران کیا، جسٹس ایس ایس شندے نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ اس طرح کی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں، چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر نکڑ پر بیٹھ کر گلی سے لیکر دلی تک کی سیاست، ڈونالڈ ٹرمپ سے لیکر جو بائیڈن تک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر ایسی گفتگو کرتے رہتے ہیں لہذا ایسی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔

Published: undefined

ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس جے این جمعدار کے ربرو ملزم اقبال احمد کی ضمانت عرضداشت پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ پانچ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ملزم کے مقدمہ کی سماعت شروع نہیں ہوئی ہے اور چارج شیٹ میں ایسا کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ ملزم نے بم بنایا تھا یا وہ کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔

Published: undefined

ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے گھر سے بیعت برآمد کرنے کا استغاثہ نے دعوی کیا ہے لیکن استغاثہ نے خود اپنی فرد جرم میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیعت دیگر ملزم رئیس احمد نے لکھی تھی اور وہ بیعت ملزم ناصر یافعی کے اشارے پر ملزم اقبال کے گھر سے بر آمد کی گئی تھی، مہر دیسائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ بیعت کی قانونی حیثیت صفر ہے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے بار ے میں گفتگو کرنا، ان کی فکر کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے دوران بحث عدالت کو حالیہ سپریم کورٹ اور ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلوں کے حوالے سے بتایا کہ پانچ سال کا عرصہ جیل میں گزارنے اور ٹرائل شروع نہ ہونے کی بنیاد پر ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے لہذا ملزم کو بھی ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے۔

Published: undefined

ایڈوکیٹ مہر دیسائی کی بحث کے اختتام کے بعد این آئی اے کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین ہندوستان اور بیرون ہندوستان مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور وہ اس کا بدلا لینا چاہتے تھے جس پر جسٹس شندے نے کہا کہ اس طرح کی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں، چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر نکڑ پر بیٹھ کر گلی سے لیکر دلی تک کی سیاست، ڈونالڈ ٹرمپ سے لیکر جو بائیڈن تک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر ایسی گفتگو کرتے رہتے ہیں لہذا ایسی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔

Published: undefined

ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین ہندوستان میں بم دھماکہ کرنا چاہتے تھے اور چاروں ملزمین کے مقدمہ کا ایک ساتھ دیکھنا چاہیے، ملزم اقبال کے مقدمہ کو الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کے گھر سے بیعت کے علاوہ ملزمین ناصر یافعی اور شاہد خان نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ اقبال کے گھر پر بم بنایا گیا تھا۔

Published: undefined

ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کی بجائے عدالت کو نچلی عدالت کو چھ ماہ میں مقدمہ مکمل کرنے کا حکم دینا چاہیے جس پر جسٹس شندے نے کہا کہ ہم نے ماضی میں مختلف مواقعوں پر عدالتوں کو جلد از جلد سماعت مکمل کے لئے جانے کا حکم دیا لیکن ہمارے حکم کے باوجود عدالتیں مقررہ مدت میں مقدمات فیصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پر آج فریقین کی بحث مکمل ہوگئی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، ملزم اقبال احمد کی ضمانت عرضداشت پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے بحث کی جبکہ ان کے معاونین ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ کرتیکا اگروال، ایڈوکیٹ قربان نے کی۔

Published: undefined

واضح رہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے ملزمین اقبال احمد، ناصر یافعی، رئیس الدین اور شاہد خان سمیت پر تعزیرات ہند کی دفعات 120(b),471,، یو اے پی اے کی دفعات 13,16,18,18(b), 20, 38, 39 اور دھماکہ خیز مادہ کی قانون کی دفعات 4,5,6 کے تحت مقدمہ قائم کیا ہے اور ان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ آئی ایس آئی ایس کے رکن ہیں اور ہندوستان میں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، نیز انہوں نے داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا ہے اور اس تعلق سے عربی میں تحریر ایک حلف نامہ (بیعت) بھی ضبط کرنے کا پولیس نے دعوی کیا ہے حالانکہ ملزمین کے اہل خانہ کا یہ کہنا ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے جھوٹے مقدمہ میں ان کے لڑکوں کو گرفتار کیا ہے کیو نکہ پولیس نے ملزمین کے قبضہ سے ایسا کوئی بھی مواد ضبط نہیں کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ وہ ممنوع تنظیم داعش کے رابطہ میں تھے اور وہ ہندوستان میں کچھ گڑ بڑ کرنا چاہتے تھے بلکہ شوشل میڈیا اور یوٹیوب کی مبینہ سرگرمیوں کو گرفتاری کی وجہ بتایا گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined