نئی دہلی: گیان واپی مسجد مقدمہ وارانسی سیشن عدالت میں زیر سماعت ہے اور مسلم فریق (انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی) کی طرٖ ف سے وکلاء کامیاب پیروی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا میں بھی روز مقدمہ کو لیکر بحث و مباحثہ ہوتا ہے جس میں بحث کرنے والے گیان واپی مسجد کے سلسلہ میں کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے جس کی بنا پر آگے چل کر مقدمہ کی کارروائی پر غلط اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ٹی وی بحث و مباحثہ میں جانب دار میڈیا مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے ایسے لوگوں کو پیش کرتا ہے جنہیں ناتو مقدمہ کی نوعیت کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی مقدمہ کی پیچیدگیوں کی انہیں سمجھ ہوتی ہے۔
Published: undefined
جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے آج ممبئی میں ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مسلم نمائندوں کو گیان واپی مسجد اور دیگر مساجد پر بحث کرنے کے لئے ٹی وی چینلوں پر جانا مناسب نہیں ہے، بغیر کسی تیاری کے بحث میں حصہ لینے والوں کو گودی میڈیا کے شکنجے سے بچنے کے لئے ایسے پروگرام میں شرکت نہیں کرنا چاہئے۔
Published: undefined
گلزار اعظمی نے کہا کہ ایک جانب جہاں انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی ضلعی عدالت میں مقدمہ کی پیروی کر رہی ہے وہیں سپریم کورٹ میں وشو بھدرا پجاری پروہت مہا سنگھ اور دیگر نے پلیس آف ورشپ قانون 1991 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے کہا ہے کہ یہ قانون غیر آئینی ہے لہذا اسے ختم کیاجائے تاکہ گیان واپی مسجد سمیت دیگر مساجد کو مندروں میں تبدیل کیا جاسکے۔
Published: undefined
معاملے کی حساسیت اور اہمیت کے پیش نظر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی خاص ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے وشو بھدرا پجاری پروہت مہا سنگھ اور دیگر کی جانب سے داخل پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے مداخلت کار کی درخواست سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی ہے جس کا نمبر 54990/2020 IA- ہے۔ اس پٹیشن پر ایک مرتبہ 10جولائی 2020 کو سماعت عمل میں آئی تھی، جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ اور اب 19 جولائی 2022 کو ایک مرتبہ پھر اس پٹیشن پر سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت متوقع ہے۔
Published: undefined
گلزار اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں دیگر ہندو تنظیموں نے پٹیشن داخل کی ہے، جمعیۃ علماء ہند ان تمام عرضداشتوں کی مخالفت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بحث کرنے والے نام نہاد مسلم نمائندوں کو اپنی روش سے باز آجانا چاہئے، ان کی ان حرکتوں سے فائدہ تو کچھ ہوگا نہیں لیکن نقصان ضرور ہوگا۔ مباحثہ میں حصہ لینے والے حضرات اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ فیصلہ ٹی وی چینلوں پر نہیں بلکہ عدالتوں میں ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined