قومی خبریں

کیا یہی ہے اصل بی جے پی؟ 4 ریاستوں کے سربراہوں میں سے 3 سابق کانگریسی

بھارتیہ جنتا پارٹی نے حال ہی میں پنجاب، جھارکھنڈ اور آندھرا پردیش میں تنظیم کی کمان 3 دوسری پارٹیوں سے آئے افراد کو سونپی ہے۔ بی جے پی کی توسیع میں کس طرح دل بدلوؤں کا غلبہ بڑھ گیا؟

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس 

مرکز اور کئی ریاستوں میں برسراقتدار بی جے پی میں دوسری سیاسی پارٹیوں سے آنے والوں کا اثر بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اعلان کردہ بی جے پی کے ریاستی صدور کی فہرست میں بھی اس خاصیت کو دیکھا گیا ۔ پارٹی نے 4 میں سے 3 ریاستوں میں تنظیم کی کمان دوسری پارٹیوں سے آئے رہنماؤں کو سونپ دی ہے۔

Published: undefined

پنجاب اور آندھرا پردیش میں کانگریس سے آنے والے سنیل جاکھڑ اور ڈی پورندیشوری کو صدر بنایا گیا ہے، جب کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ سے آئے بابولال مرانڈی کو جھارکھنڈ میں کمان سونپی گئی ہے۔ تینوں ریاستوں میں لوک سبھا کی کل سیٹوں کی 50 سے زیادہ سیٹیں ہیں۔

Published: undefined

صرف تنظیم ہی نہیں، مرکز میں وزیر سے لے کر ریاست کے وزیر اعلیٰ اور وزیر کے عہدوں پر بڑی تعداد میں دوسری پارٹی سے آئے لوگوں کا قبضہ ہے۔ اس کا سیدھا مظلب ہے کہ یا تو بی جے پی میں اچھے رہنماؤں کا فقدان ہے یا پھر وہ حزب اختلاف کو کمزور کر نا چاہتے ہیں۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے کوٹے سے قائد حزب اختلاف شوبھندو ادھیکاری ہیں، جو 2021 کے انتخابات سے قبل حکمران ترنمول حکومت میں وزیر تھے۔ دوسری پارٹیوں اور حکومتوں  کے زیادہ تر لوگ 2014 کے بعد بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔

Published: undefined

دوسری پارٹی سے آئے لوگ وزیر اعلی بنے

ہمنتا بسوا سرما، جو 2002 سے 15 تک آسام میں ترون گوگوئی کی قیادت والی کانگریس حکومت میں وزیر تھے وہ  2015 میں بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ جب سرما 2015 میں بی جے پی میں شامل ہوئے تو انہیں تنظیم کا کام سونپا گیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انتخابی مہم تک کی ذمہ داری سرمہ کے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ سرما کی محنت رنگ لائی اور بی جے پی پہلی بار آسام میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور سربانند سونووال بی جے پی حکومت میں وزیر اعلیٰ بنے۔ سرما کو سونووال حکومت میں وزیر بنایا گیا تھا۔ تاہم، ٹھیک 5 سال بعد جب بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو سرما کو وزیر اعلیٰ کی کرسی مل گئی۔ غیر اعلانیہ طور پر سرما کے پاس شمال مشرقی ریاستوں کی ذمہ داری بھی ہے۔

Published: undefined

این. برین سنگھ – منی پور کے وزیر اعلیٰ، جو فسادات کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں  وہ سابق کانگریسی ہیں۔ بیرن سنگھ کانگریس کی اوکرم ایبوبی حکومت میں نوجوانوں اور خوراک کی فراہمی کے وزیر تھے۔ 2016 میں انہوں نے اعلیٰ قیادت سے ناراضگی کے بعد کانگریس چھوڑ دی۔ اس کے بعد سنگھ بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ 2017 میں کانگریس نے منی پور میں 28 سیٹیں جیتی تھیں جب کہ بی جے پی کو 21 سیٹیں ملی تھیں۔ دوسری بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بی جے پی نے بیرن سنگھ کی قیادت میں حکومت بنائی۔ سنگھ تب سے منی پور کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

Published: undefined

مانک ساہا- تریپورہ کے وزیر اعلی مانک ساہا بھی سابق کانگریسی ہیں۔ ساہا، جو پیشے سے ڈینٹسٹ ہیں، فعال سیاست میں آنے سے پہلے تریپورہ میڈیکل کالج میں پڑھاتے تھے۔ وہ بائیں بازو کی حکومت کے دوران پارٹی کی آواز تھے۔ ساہا کانگریس میں رہتے ہوئے تریپورہ کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

Published: undefined

2016 میں وہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے۔ بی جے پی نے پہلے انہیں الیکشن انچارج بنایا اور پھر پنا پرمکھ 2020 میں بی جے پی نے ریاستی صدر کی کمان ساہا کو سونپ دی۔ 2023 کے انتخابات سے پہلے ساہا کو بپلو دیو کی جگہ وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ ساہا کی قیادت میں پارٹی دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔

Published: undefined

پیما کھانڈو- اروناچل کے وزیر اعلی پیما کھانڈو بھی بنیادی طور پر کانگریسی ہیں۔ 2011 میں سیاست میں آنے والے کھانڈو بی جے پی سے پہلے کانگریس میں رہ چکے ہیں۔ 2016 میں، کھانڈو نے پہلے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پھر بعد میں ایم ایل اے کے ایک گروپ کے ساتھ بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ بی جے پی نے انہیں وزیر اعلیٰ بنایا۔ کھانڈو کی قیادت میں بی جے پی کو 2019 میں بھی کامیابی ملی۔

Published: undefined

جھارکنڈ  اور بہار میں بھی دوسری پارٹی سے آئے لوگوں کے ہاتھوں میں بی جے پی

ہندی مرکز بہار اور جھارکھنڈ میں بی جے پی طویل عرصے سے اقتدار میں ہے۔ اس کے باوجود تنظیم کی کمان دوسری پارٹی سے آئے لوگوں کے پاس ہے۔ واضح رہے جھارکھنڈ میں بی جے پی نے بابولال مرانڈی کو صدر بنایا ہے۔ اگرچہ مرانڈی نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز بی جے پی کے ساتھ کیا، لیکن انہوں نے ہائی کمان سے اختلافات کے بعد 2006 میں اپنی پارٹی بنائی۔ 2009 میں، مرانڈی کی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑا، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔

Published: undefined

2020 میں، مرانڈی نے اپنی پارٹی کو بی جے پی میں ضم کر دیا۔ اس وقت بی جے پی نے انہیں قانون ساز پارٹی کا لیڈر بنایا تھا لیکن تکنیکی وجوہات کی وجہ سے وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکے تھے۔ اب انتخابات سے پہلے بی جے پی نے ان کو  تنظیم کی کمان سونپ دی ہے۔

Published: undefined

اگر ہم بہار کی بات کریں تو یہاں اس سال مارچ میں بی جے پی نے سمراٹ چودھری کو اپنا صدر مقرر کیا تھا۔ 30 سال کے سیاسی کیریئر میں چودھری بی جے پی سے پہلے آر جے ڈی، جے ڈی یو اور ہم (ایس ای) میں رہ چکے ہیں۔

Published: undefined

پنجاب اور آندھرا پردیش میں بھی پارٹی دوسری پارٹی سے لوگوں کے ہاتھ میں

بی جے پی نے آندھرا پردیش کی کمان ڈی پرندیشوری کو اور پنجاب کی کمان سنیل جاکھڑ کو سونپی ہے۔ دونوں کانگریس کے سینئر لیڈر رہے ہیں۔ سنیل جاکھڑ 2021 سے پہلے پنجاب کانگریس کے سربراہ تھے۔ انہیں کیپٹن امریندر سنگھ کا قریبی سمجھا جاتا تھا۔

Published: undefined

جاکھڑ کو سیاسی وراثت ملی ہے۔ ان کے والد بلرام جاکھڑ بھی لوک سبھا کے اسپیکر رہ چکے ہیں۔ سنیل نے 1990 میں سیاست میں قدم رکھا اور 2002 میں کانگریس کے ٹکٹ پر پہلی بار ایم ایل اے بنے تھے۔ 2012-2015 تک وہ قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 2017 میں انہیں پنجاب کانگریس کی کمان ملی۔ 2022 میں ہائی کمان سے اختلافات کے بعد وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ حال ہی میں پارٹی نے انہیں پنجاب یونٹ کا صدر بنایا ہے۔

Published: undefined

آندھرا پردیش کی بات کریں تو بی جے پی نے یہاں ڈی پورندیشوری کو کمان سونپی ہے۔ پورندیشوری منموہن سنگھ حکومت میں وزیر رہ چکی ہیں۔ انہوں نے آندھرا کی تقسیم کے سلسلے میں اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا۔ 2014 میں، پورندیشوری بھی بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن ہار گئیں۔ تاہم پارٹی نے انہیں تنظیم میں شامل کر لیا۔ تنظیم میں کئی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد بی جے پی نے آندھرا کی کمان پورندیشوری کو سونپ دی ہے۔

Published: undefined

کابینہ میں بھی  دوسری پارٹی سے آئے لوگ

نارائن رانے، سربانند سونووال، جیوترادتیہ سندھیا اور راؤ اندرجیت سنگھ، جو دوسری پارٹیوں سے آئے ہیں، مرکزی کابینہ  میں ہیں۔ اسی طرح، بی جے پی کی حکومت والی مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کی کابینہ میں، دوسری پارٹی سے آئے لوگوں کو بڑے محکمے ملے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined