جموں و کشمیر میں حالات بہت تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں اور کئی طرح کے احکامات نے ایک الگ طرح کی سرگرمی اس ریاست میں پیدا کر دی ہے۔ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اس نے ملک بھر میں کئی طرح کی قیاس آرائیوں کا دور شروع کر دیا ہے۔ ریاست میں جاری امر ناتھ یاترا کے لیے پہلے 40 ہزار سیکورٹی فورسز کی تعیناتی ہوئی اور پھر اضافی 10 ہزار فوجیوں کو بھیجا گیا۔اسی درمیان 25 ہزار سیکورٹی فورسز وادی میں بھیجے جانے اور فوج و فضائیہ کو ہائی الرٹ پر رکھنے کو لے کر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا، پھر حکومت کے ذریعہ اچانک امرناتھ یاترا کو رَد کرتے ہوئے سبھی عقیدتمندوں و سیاحوں کو وادی خالی کرنے کا فرمان جاری کرنے سے صورت حال میں مزید سنگینی نظر آنے لگی۔
Published: undefined
لیکن ان احکامات اور قیاس آرائیوں کے درمیان جو سب سے اہم اور فکرانگیز خبر ہوا میں تیر رہی ہے وہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے جا رہی ہے۔ خصوصی ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق مرکزی حکومت انتخاب سے پہلے نئی حدبندی یا ریاست کی تقسیم کے بارے میں کوئی اعلان کر سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت جموں و کشمیر کو تین حصوں میں بانٹ سکتی ہے اور اس کے تحت جموں کو مکمل ریاست کا درجہ، لداخ کو مرکز کے ماتحت ریاست اور کشمیر کو ایک الگ ریاست کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
وادی کی ہوا میں یہ خبر بھی تیر رہی ہے کہ مودی حکومت کشمیر کو ایک الگ ریاست کا درجہ نہیں دے گی بلکہ صرف جموں کو مکمل ریاست کا درجہ ملے گا اور کشمیر و لداخ مرکز کے ماتحت دو الگ الگ ریاستیں ہو جائیں گی۔ حالانکہ ان خبروں کی کہیں سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن حکومت نے جس طرح کے اقدام گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کے تعلق سے اٹھائے ہیں، فضا میں قیاس آرائیوں کا بازار پوری طرح گرم ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ قیاس آرائیاں یہ بھی ہو رہی ہیں کہ حکومت آئین کے متنازعہ شق 35 اے کو ہٹانے کا فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔ یہی شق جموں و کشمیر کے مقامی شہریوں کو متعارف کرتا ہے جو اسے ہندوستانی آئین کی شق 370 کے تحت خصوصی درجہ دیتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت شق 35 اے کو ہٹانے کے پیش نظر ہی حالات سے نمٹنے کے لیے وادی میں اضافی سیکورٹی کے قدم اٹھا رہی ہے۔
Published: undefined
اس پورے معاملے کو لے کر مرکزی حکومت کی جانب سے اب تک کچھ بھی صاف نہیں کیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ ایک کے بعد ایک ہو رہے واقعات محض اتفاق ہیں یا ان سب کے پیچھے کسی خاص طرح کا منصوبہ ہے۔ مرکزی حکومت نے ان سب کو لے کر ایک رازدارانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے جب کہ مقامی سطح پر افسران گول مول جواب دے کر غلط فہمی کو مزید بڑھا رہے ہیں اور کئی الگ الگ طرح کی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined