مہاراشٹر میں حکومت کی تشکیل کے لیے گورنر کی کوششوں کو کیا درست مانا جائے گا؟ ماہرین کی نظر میں یہ آئینی طریقہ ہے اور گورنر اسی کے دائرے میں کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس سے اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے امکانات پر بھی روک لگی ہے۔
Published: undefined
غور طلب ہے کہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے سب سے پہلے بی جے پی کو حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی تھی، اور اس کے ذریعہ نااہلی ظاہر کرنے کے بعد شیوسینا سے حکومت بنانے کے لیے پوچھا۔ طے مدت میں شیوسینا نے حکومت تشکیل دینے کی خواہش تو ظاہر کی لیکن اس کے لیے ضروری نمبر کا سرٹیفکیٹ دینے میں ناکام رہی۔ اس کے بعد راج بھون نے تیسری سب سے بڑی پارٹی این سی پی کو حکومت بنانے کی دعوت دی ہے اور آج شام تک کا وقت دیا ہے۔
Published: undefined
اب یہ تجسس بڑھ رہا ہے کہ کیا گورنر کا طریقہ درست ہے؟ اس بارے میں آئین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آئینی طریقہ ہے اور اس سے اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری سبھاش کشیپ کا کہنا ہے کہ ’’گورنر آئین پر عمل کر رہے ہیں۔ پارٹیوں کو ایک کے بعد ایک بلا کر انھوں نے آئینی راستہ اختیار کیا ہے، جس کے ذریعہ خرید و فروخت کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘ آئین کے مطابق ریاست میں حکومت بنانے کے لیے وقت کے معاملے میں گورنر کا فیصلہ آخری ہے، خاص طور سے مہاراشٹر میں پیدا ہوئے ایک سیاسی بحران کے منظرنامے میں۔
Published: undefined
کشیپ نے کہا کہ اگر گورنر کو لگتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کی حالت میں نہیں ہے، تب وہ صدر جمہوریہ کو اس بارے میں مطلع کر سکتے ہیں۔ کشیپ نے کہا کہ ’’اگر وہ چاہیں تو این سی پی کے بعد کانگریس کو بھی بلا سکتے ہیں۔ شیوسینا کے معاملے میں غالباً انھیں نہیں لگا کہ یہ پارٹی حکومت بنا پانے میں اہل ہے۔‘‘
Published: undefined
وہیں لوک سبھا کے سابق سکریٹری پی ڈی ٹی آچاری کا بھی کہنا ہے کہ وقت کے معاملے میں کوئی فیصلہ لینے کے لیے گورنر کے پاس پورا اختیار ہے۔ آچاری نے مہاراشٹر میں جاری سیاسی بحران پر کہا کہ ’’گورنر کی ترجیح ریاست میں حکومت بنانے کی ہے۔ اگر انھیں لگتا ہے کہ کوئی امکان ہے، تو وہ یقینی طور سے مدت بڑھا سکتے ہیں جس سے کوئی پارٹی حکومت بنا سکے۔ لیکن اگر انھیں لگتا ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے تو وہ اس بارے میں صدر جمہوریہ کو بتا سکتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز