نئی دہلی: ہندوستان اور ایران کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر ڈاکٹر علی چگینی نے کہا کہ ہندوستان کے برہمن اور ایران کے حکماء ایک ساتھ مل جائیں تو بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ بات انہوں نے ایران کلچرہاؤس اور انٹر نیشنل میکرو فلم نور کے تعاون سے ایران کے مشہور شاعر حکیم نظامی کی کتاب ’خمسہ نظامی‘ کی رسم نمائش کے موقع پر کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے شعراء اور ایران کے شعراء ایک دوسرے کو پڑھ لیں تو یہاں کے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
Published: undefined
ایرانی سفیرمسٹر چگینی نے کہا کہ دونوں شعراء کے یہاں کلام میں کسی قسم کے تشدد کا کوئی عنصر نہیں ہے بلکہ محبت کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی تہذیب اور ہندوستانی تمدن سے دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسان نے چاند پر کمند ڈال دی ہے اور آسمان کو پیروں سے روند دیا ہے مگر وہ انسان سے دور ہوگئے لیکن اگر ہندوستان کے برہمن اور ایران کے حکماء چاہیں تو انسانیت کو زندہ کرتے ہوئے ہمارے معاشرتی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
Published: undefined
ایرانی سفیر نے کہا کہ جس طرح ہندوستان مختلف تہذیبوں کا ملک ہے اسی طرح ایران بھی مختلف تہذیبوں کا ملک ہے اور دونوں کی تہذیب و ثقافت میں یکسانیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملک اس ضمن میں کوشش کریں کہ ملک کے ماحول میں تبدیلی آئے اور دونوں ملک کے اساتذہ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وزارت خارجہ میں مشرقی زون کے سربراہ سوربھ کمار نے ہندوستان اور ایران کے گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرام دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں نہ صرف فارسی 600 سال قبل سرکاری زبان تھی بلکہ یہ تہذیبی زبان بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکیم نظامی کی کتاب سے ہند- ایران روابط کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ میری اہلیہ نے حافظ، سعدی، شیرازی وغیرہ شعراء شاعری اور اس کی اہمیت سے آگاہ کیا اور کہا کہ ہندوستان اور ایران کے تناظر میں ان لوگوں کی شاعری بڑی اہمیت ہے۔ آغا خان فاؤنڈیشن کے ڈائرکٹر رتیش نندہ نے ہمایوں ٹومب کی تزئین کاری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہاں کے کلچرل پر ایران کے گہرے اثرات ہیں اور یہ اثرات تمام جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
Published: undefined
دہلی یونیورسٹی کی شعبہ اردو کی صدر پروفیسر نجمہ رحمانی نے فارسی زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو اگر جسم ہے تو فارسی روح ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اردو سے فارسی کو الگ کر دیا جائے تو اردو ادھوری رہ جائے گی۔ انہو ں نے مزید کہا کہ ایران اور ہندوستان کا رشتہ جسم اور روح کا ہے اور فارسی کی شیرینی صرف زبان میں ہی نہیں بلکہ تہذیب میں بھی ہے۔ ایران کی یونیورسٹی، شیراز کے اسسٹنٹ پروفیسر خاقانی نے کہا کہ ایران اور ہندوستانی شاعروں کے مشترکہ تعلقات ہیں اور اس سمت آگے بڑھ رہے ہیں۔
Published: undefined
ایران کلچر ہاؤس کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر محمد علی ربانی نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس نمائش گاہ کی شکل میں آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ہند ایران کے مشترکہ مزاج کا امتزاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ نمائش میں پیش کی گئی نقاشی اور کیلی گرافی ان کاشوں کا نتیجہ ہیں جو ہندوستان اور ایران کے ہندو اور مسلمان کاتبوں کے فن کا مظاہرہ اور بہترین ادبی اور ثقافتی شاہکار ہے۔ ڈاکٹر ربانی نے کہا کہ آج جب دنیا میں نفرتوں کا بازار گرم ہے ایسے وقت اس طرح کا لٹریچر بہت مفید ہے اور یہ دنیا کے انسانی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ جس سے دنیا میں اخوت اور آرامش، دوستی اور اس قسم کی چیزوں کا مشاہدہ کیا جاسکے جس سے ایک بہتر انسانی معاشرہ وجود میں آسکے۔
Published: undefined
دہلی آرٹس کالج کی پروفیسر امبریک چندوک نے کہا کہ نظامی سماجی، رومانی شاعر تھے۔ وہ نہ صرف فارسی کے اسکالر تھے بلکہ اسلامی، نباتات ودیگر علوم کے بھی ماہر تھے۔ ڈاکٹر مہدی باقرخان کی نظامت میں ہوئے پروگرام میں سب سے پہلے مجلس شوریٰ ایران کے سابق رکن حداد عادل نے ایران سے بذریعہ ویڈیو حکیم نظامی کے اشعار کی خصوصیات بیان کی۔ اس کے بعد انٹر نیشنل نور مائکرو فلم سینٹرکے بانی ڈاکٹرمہدی خواجہ پیری نے اپنے ویڈیو پیغام میں حکیم نظامی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سردست ’خمسہ نظامی‘ جسے نورمیکرو فلم سینٹر نے تیار کیا ہے وہ بادشاہ اکبر کی براہ راست نظارت میں تیار کی گئی حکیم نظامی کی یادگار نوشت ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ خمسہ نظامی کا ایک قلمی نسخہ برطانیہ کی لائبریری میں سونے کی تزئین کے ساتھ شمارہ 12208 پر موجود ہے جو تصاویر کے ہمراہ ہے، یہ کتاب مغل بادشاہ اکبر کے لئے لکھی گئی تھی اور اس پر ایک گروپ نے مل کر کام کیا تھا۔ خوش نویسی کے علاوہ اس کتاب میں چالیس بہترین تصاویر بھی موجود ہیں جو اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ کتاب ایرانی فنکاری کی ایک بہترین مثال پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں موجود خوبصورت تصاویر تقریباً بیس فنکاروں کی محنت ہے جن میں سے اکثریت ہندو لوگوں کی تھی۔ اگرچہ اس کے اصلی فنکار ''خواجہ عبد الصمد'' تھے جو کہ ایرانی مسلمان تھے۔ عبد الصمد وہ انسان تھے جو ہمایوں کے دور میں بہترین فنکار تھے جس کو ہمایوں اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس زمانہ میں عبدالرحیم، عنبران قلم نامی کاتب زمانہ کا بہترین کاتبوں میں شمار ہوتے تھے۔ کلیم نظامی کے کلام پر مبنی قوالی بھی پیش کی گئی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined