مدھیہ پردیش کی بھوپال سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے 26/11 حملہ میں شہید ہوئے اے ٹی ایس سربراہ ہیمنت کرکرے کو لے کر ایک بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’اے ٹی ایس سربراہ ہیمنت کرکرے کو ان کے اعمال کی سزا ملی ہے۔ انہیں سنیاسیوں کی بد دعا لگی ہے ‘‘۔ پرگیہ نے مزید کہا کہ ’’جس دن میں جیل گئی تھی اس کے ٹھیک سوا مہینے کے اندر ہی دہشت گردوں نے ان کا خاتمہ کر دیا ‘‘۔
سادوھی کے اس بیان سے سیاسی گلیاروں میں ایک طوفان آ گیا ہے اور آئی پی ایس افسران کی تنظیم ’ آئی پی ایس ایسوسیشن‘ نے اس اس بیان کو نہ صرف شرمناک قرار دیا ہے بلکہ کہا ہے کہ ’’اشوک چکر اعزاز حاصل کرنے والے بہادر آئی پی ایس افسر شہید ہیمنت کرکرے نے دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے ملک کے لئے عظیم قربانی دی ۔ ہم سبھی ایک امیدوار کے ذریعہ دئے گئے بیان کی مزمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ قربانی دینے والے تمام شہیدوں کا احترام کرنا چاہئے ‘‘۔
Published: undefined
سادھوی کے بیان پر صرف پولس اہلکار ہی ناراض نہیں ہیں بلکہ26/11 حملہ کے وہ متاثرین بھی برہم ہیں جو اس حملہ میں دہشت گردوں کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ دیویکا وہ لڑکی ہے جس کے پیر میں اس حملہ میں گولی لگی تھی اس کا سادھوی کے بیان پر کہنا ہے ’’سادھوی نے ایسی بد دعا دی ہے تو وہ بد دعا ہمیں بھی لگی ہے ۔ دہشت گردوں سے آپ کا کوئی فائدہ ہونے کا رشتہ تھا کیا۔ 26/11 کے حملہ میں بے قصور لوگوں کی موت ہوئی۔ ان لوگوں کو اس بات کی بھی خوشی ہو رہی ہے ۔ کرکرے نے ملک کے لئے قربانی دی ہے اور ان کے بارے میں ایسا کہنا بہت ہی غلط ہے ‘‘۔
Published: undefined
دیویکا نے کہا ’’ابھی انتخابات کا وقت ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے لئے جو دل میں آ رہا ہے وہ بیان دیا جا رہا ہے۔ ابھی ہمارے زخم تازہ ہیں ان پر نمک کیوں چھڑکا جا رہا ہے ۔ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو پاکستان میں چھپے بیٹھے ماسٹر مائنڈ کو ختم کر کے دکھاؤ اور ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم شہیدوں کے تعلق سے ایسا مت کہو ‘‘۔
واضح رہے یہ دیویکا وہی بچی ہے جس کی گواہی کی وجہ سے قصاب کو پھانسی ہوئی تھی اور حملہ کے وقت یہ محض نو سال کی تھی ۔ یہ سب سے کم عمر کی گواہ تھی اور حملہ میں اس کے پیروں میں گولی لگی تھی ۔ دیویکا نے بتایا ’’ 26/11 کے دن کو میرا پورا خاندان بھول نہیں سکتا ، میں اپنے والد اور بھائی کے ساتھ پونے جانے کے لئے باندرا سے سی ایس ٹی اسٹیشن پہنچی ۔ پلیٹ فارم نمبر ۱۲ پر ہم ایکسپریس ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ میرا بھائی ٹائلٹ کے لئے گیا تھاتبھی اچانک فائرنگ شروع ہو گئی ۔ پاپا نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں باقی لوگوں کی طرح جان بچاکر بھاگنے لگے اور تبھی مجھے احساس ہو ا کہ میرے پیر میں کچھ آ کر لگا اور میں زمین پر گر گئی۔
لوگوں کی چیخ وپکار کے درمیان مجھے گولیاں چلانے والا شخص نظر آ رہا تھا ۔ گولی چلانے والا شخص مسکرا رہا تھا اور اس کے چہرے پر بالکل بھی کوئی شکن نہیں تھی اور وہ اجمل قصاب تھا‘‘۔ اس کے والد ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرتے تھے لیکن اس حملہ کے بعد ان کی بھی زندگی بدل گئی کیونکہ لوگوں نے حملہ کے بعد ان ان کے ساتھ کاروبار کرنا کم کر دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined