آخر آر بی آئی اور حکومت کے مابین تعلقات میں تلخی کیوں آئی؟ اصل جھگڑا ہے کیا؟
اصل جھگڑا یہ ہے کہ حکومت آر بی آئی کو قابو میں کرنا چاہتی ہے۔ حکومت آر بی آئی کو بورڈ کے ذریعہ چلایا جانے والا ادارہ بنانا چاہتی ہے۔ اس کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب نچیکیت مور کو ان کی مدت کار ختم ہونے سے پہلے ہٹایا گیا اور حکومت نے اپنے تین لوگوں کو ڈائریکٹر بنا دیا۔ یہ لوگ سرکاری ڈائریکٹر یعنی سکریٹریوں سے الگ نہیں تھے، حکومت کو لگا تھا کہ ان ڈائریکٹروں کے ذریعہ وہ بورڈ کی میٹنگوں کو متاثر کر آر بی آئی پر اپنے فیصلے مسلط کر سکے گی لیکن حکومت یہ بھول گئی کہ آر بی آئی گورنر کا عہدہ بہت خاص ہے، وہ صرف ایک ایسے سی ای او نہیں جو بورڈ کے احکامات کو مانتے رہیں۔ آر بی آئی بورڈ میں اپنے خاص لوگوں کو بیٹھانا آر بی آئی پر قبضہ کی کوشش کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔
حکومت آخر آر بی آئی سے چاہتی کیا ہے؟ اور اگلی بورڈ میٹنگ میں کیا ہو سکتا ہے؟
حکومت چاہتی ہے کہ آر بی آئی ’پرامپٹ کریکٹیو ایکش‘ میں نرمی کرے جبکہ آر بی آئی کا یہ اصول کافی سخت ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کو پیسے کے لین دین میں کھلی چھوٹ دینے کی بھی حکومت کی خواہش ہے، علاوہ ازیں وہ غیر بینکنگ مالی کمپنیوں اور ایم ایس ایم ای یعنی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لئے خصوصی کھڑکی (ونڈو) بنانا چاہتی ہے۔ لیکن ان سب سے پہلے جو بات ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کی نظر آر بی آئی کے خزانے پر ہے اور اسے کم از کم ایک لاکھ کروڑ روپے چاہییں جسے وہ اگلے لوک سبھا چناؤ میں خرچ کر سکے۔ ہاں، وہ کچھ پیسہ لگاتار بڑھتے مالی خسارے کے ہدف کو پُر کرنے میں بھی خرچ کرنا چاہتی ہے۔
اس سے عام لوگوں، بینکوں اور کھاتے داروں پر کیا اثر پڑے گا؟
آر بی آئی اور حکومت کے جھگڑے کا سیدھا اثر عام لوگوں پر نہیں پڑے گا لیکن اگر حکومت اور آر بی آئی الگ الگ راستوں پر چلیں گے تو غیر مستحکم اور غیریقینی کا ماحول بنے گا اور سرمایہ کاروں میں خوف پیدا ہوگا۔ نتیجتاً سرمایہ کاری اور ترقی دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ہندوستان کو تا حال دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جا رہا ہے ایسے حالات میں حکومت کیوں آر بی آئی سے مدد مانگ رہی ہے۔
تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت کا تمغہ دراصل ایک مکھوٹا ہے۔ نئے طور طریقوں کو اپنانے کے بعد یہ سامنے آتا ہے کہ جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر سامنے رکھا جا رہا ہے لیکن اس شرح ترقی میں کئی بنیادی کمیاں پوشیدہ ہیں۔ اب چونکہ حکومت کے پاس متبادل موجود نہیں ہے جن سے وہ سرمایہ کاری اور ترقی میں تیزی لا سکیں تو اس کا انحصار کمزور اور نرم کرنسی کی پالیسی پر بڑھ گیا ہے کیوں کہ اس سے ہی سرماریہ کاری اور ترقی کی شرح کچھ حد تک بڑھ سکتی ہے۔
آپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ابھی اور بھی بری خبریں آنے والی ہیں، آپ کو کیا خدشات ہیں؟
حکومت نے آر بی آئی ایکٹ کی شق-7 کے تحت صلاح و مشورہ شروع کر دیا ہے۔ یہ کوئی عام بات نہیں ہے بلکہ اس سے خاص اشارے ملتے ہیں۔ حکومت اگر اس پر بضد رہی اور اس شق کے تحت ہدایات جاری کر دیں تو مجھے یقین ہے کہ گورنر استعفی دے دیں گے اور یہی سب سے بری خبر ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Nov 2018, 7:09 PM IST
تصویر: پریس ریلیز