لکھنو: اتر پردیش میں بین المذاہب شادیوں کے رجسٹریشن کے حوالہ سے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اہم فیصلہ سنایا ہے۔ ہائی کورٹ نے شادیوں سے قبل نوٹس چسپاں کرنے اور اس پر اعتراضات طلب کرنے کو غلط قرار دیا ہے۔ عدالت نے اسے آزادی اور رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
Published: undefined
عدالت نے کہا کہ کسی کی مداخلت کے بغیر اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنا بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اسپیشل میرج ایکٹ کے ایک معاملہ میں عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ سنایا اور ایک مہینے تک شادی کرنے والے جوڑے کے فوٹو اور تفصیلات کو نوٹس بورڈ پر لگانے کی پابندی کو ختم کر دیا۔
Published: undefined
فیصلہ میں کہا گیا کہ شادی کرنے کے خواہاں لڑکا اور لڑکی اگر تحریری طور پر یہ درخواست پیش کرتے ہیں کہ ان کی تفصیلات نوٹس بورڈ پر چسپاں نہ کی جائیں تو اس درخواست کو قبول کر کے ان کے بنیادی حق کی حفاظت کی جائے۔ تاہم میرج افسر کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ دونوں فریقین کی شناخت، عمر اور دیگر حقائق کی تصدیق کرے۔ عدالت نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ اس طرح کے اقدام صدیوں پرانے ہیں جو نوجوان نسل کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کرنے کے مترادف ہے۔
Published: undefined
اسپیشل میریج ایکٹ 1954 کے تحت بین المذاہب شادی کے معاملہ میں ضلع میرج آفیسر کے یہاں 30 دن تک نوٹس چسپاں کر کے اعتراض ظاہر کرنے کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس دوران اگر شادی کے حوالہ سے کوئی اعتراض ظاہر کرتا ہے تو اس پر غور کیا جاتا تھا۔
Published: undefined
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج وویک چودھری نے کہا کہ اس قانون کی وجہ سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ یہ فیصلہ ایسی خاتون کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سنایا گیا جس نے ہندو سے شادی کے لئے اپنے مذہب کو ترک کر دیا۔
Published: undefined
عرضی گزار صفیہ سلطان نے ابھیشیک کمار پانڈے سے شادی کے بعد اپنا نام سمرن رکھ لیا ہے۔ ہائی کورٹ نے سماعت پوری ہونے کے بعد 14 دسمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ بدھ کے روز ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے معاملہ کا تصفیہ کر دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز