ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی حکومت بھی کمال ہے۔ ملک میں 34 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ بے روزگاری کی شکار ریاست میں روزگار دینے کی جگہ حکومت سروے کرنے والی ایجنسی پر ہی کارروائی کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ بات خود وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے ایک طرح سے سی ایم آئی ای (سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکونومی) کو دھمکاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار جھوٹے ہیں اور ایجنسی کے خلاف حکومت سے جو ایکشن بن پڑے گا وہ لیا جائے گا۔ سی ایم آئی ای نے حال ہی میں جاری اعداد و شمار میں بتایا تھا کہ ہریانہ میں سب سے زیادہ 34.1 فیصد بے روزگاری ہے، جو ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہریانہ نے لگاتار دوسری بار شرح بے روزگاری میں ٹاپ رہ کر سال کا اختتام کیا ہے۔ اس سے پہلے سال 2020 کے آخر میں بھی یہاں بے روزگاری شرح 32.5 فیصد تھی، جو ملک میں سب سے زیادہ تھی۔
Published: undefined
چنڈی گڑھ میں میڈیا سے روبرو ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نے سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکونومی (سی ایم آئی ای) کی رپورٹ کی بنیاد پر ریاست میں 34 فیصد بے روزگاری شرح کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہریانہ میں بے روزگاری کی حقیقی شرح 6.1 فیصد ہے۔ وزیر اعلیٰ نے رپورٹ کو بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ ہریانہ میں گزشتہ تین سال سے فیملی شناختی پروگرام نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت تقریباً 98 فیصد کنبوں کا رجسٹریشن ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 65 لاکھ 78 ہزار 311 کنبوں کا رجسٹریشن ہوا ہے اور 2 کروڑ 57 لاکھ 99 ہزار آبادی نشان زد ہے۔ اس اعداد و شمار میں 18 سال سے 58 سال کی عمر والے طبقہ کے ایک کروڑ 72 لاکھ 96 ہزار اشخاص ہیں، جن میں سے 10 لاکھ 59 ہزار 530 اشخاص نے خود کو بے روزگار قرار دیا ہے۔ اس اعداد و شمار کی بنیاد پر اگر بے روزگاری شرح کو ناپا جائے تو ہریانہ میں صرف 6.1 فیصد شرح بے روزگاری ہے۔ وزیر اعلیٰ ہمیشہ اسے بھی کانگریس کی سازش بتاتے رہے ہیں۔
Published: undefined
انھوں نے کہا کہ کانگریس کے لوگ سی آئی ایم اے کے ذریعہ جاری 34 فیصد بے روزگاری شرح کے غلط اعداد و شمار پر بے وجہ سیاسی بیان بازی کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے سروے ایجنسی کے طریقے پر ہی سوال اٹھایا۔ کہا کہ سی ایم آئی ای کچھ لوگوں کے سیمپل کی بنیاد پر اعداد و شمار جاری کرتی ہے۔ اس میں بھی طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر 34 فیصد جیسے غلط اعداد و شمار جاری کر کے ریاستی حکومت کو بدنام کرنے کا کام کرتی ہے۔
Published: undefined
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑی تو غلط اعداد و شمار جاری کرنے کے لیے سی ایم آئی ای کے خلاف کارروائی بھی کریں گے۔ اپنی بات کی حمایت میں وزیر اعلیٰ بولے کہ نیتی آیوگ اور مرکزی حکومت نے بھی ایسی خبروں پر کبھی دھیان نہیں دیا۔ ظاہر ہے مودی حکومت کی باٹم لائن پر ہی وزیر اعلیٰ بول رہے تھے۔ وہ بولے کہ نیتی آیوگ سبھی پالیسی پر مبنی فیصلوں کے لیے قومی اسٹیٹسٹکس دفتر (این ایس او) کے ذریعہ کیے گئے سروے کو ہی مانتا ہے۔ این ایس او نے سنٹرل اسٹیٹسٹکس اور پروگرام عمل درآمد وزارت کے تحت 2017 میں مدتی ورک فورس سروے (پی ایل ایف ایس) شروع کیا تھا اور پی ایل ایف ایس کی تازہ رپورٹ آن لائن دستیاب ہے۔ ان دونوں سروے کو ایک ساتھ دیکھنے سے ہریانہ میں شرح بے روزگاری کے اعداد و شمار میں کافی فرق دکھائی پڑتا ہے۔ پی ایل ایف ایس نے جنوری-مارچ 2021 کے دوران ہندوستان میں شرح بے روزگاری 9.4 فیصد جب کہ ہریانہ میں 10.3 فیصد دکھائی ہے۔ لیکن سی ایم آئی ای نے اسی مدت کے دوران ملک میں 7.4 فیصد جب کہ ہریانہ میں 29.3 فیصد بے روزگاری ظاہر کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سی ایم آئی ای نے کبھی بھی صحیح نمبر پیش نہیں کیے ہیں۔
Published: undefined
کمپنی نے اپنی رپورٹ میں نومبر 2021 کے دوران ہریانہ میں شرح بے روزگاری 29.3 فیصد دکھائی ہے۔ حالانکہ یہ رپورٹ بھی سچائی سے کوسوں دور ہے۔ کیونکہ محض 3 مہینے کے اندر ہی بے روزگاری شرح 34 فیصد دکھا رہے ہیں، جو اپنے آپ میں مختلف ہے۔ انھوں نے کہا کہ سی ایم آئی ای، جیسا کہ اس کے نام سے خود ظاہر ہے، فائدہ کمانے کے لیے بنائی گئی نجی ملکیت والی کمپنی ہے۔ اس لیے اسے غیر جانبدار اور تعصب سے پاک نہیں کہا جا سکتا۔ مصنوعی نمبروں کی بنیاد پر ریاست میں روزگار کے منظرنامہ کی ایک جھوٹی تصویر پیش کرنا کمپنی کی عادت رہی ہے۔ ظاہر ہے وزیر اعلیٰ بے روزگاری کو لے کر سی ایم آئی کے لگاتار آ رہے اعداد و شمار سے تلملائے ہوئے تھے۔ ایک بار تو انھوں نے طنز کستے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ ریاست میں بے روزگاری کی شرح 54 فیصد بتانے والے ہیں۔
Published: undefined
سی ایم آئی ای نے چند دنوں پہلے ہی ملک کی شرح بے روزگاری گزشتہ دسمبر میں 7.91 فیصد بتاتے ہوئے ہریانہ میں اسے 34.1 فیصد بتایا تھا۔ دیہی علاقوں میں اسے 30.6 فیصد جب کہ شہری علاقوں میں 39.1 فیصد بتایا تھا۔ حکومت کے لیے ایک بار پھر یہ پریشانی کا سبب بن گیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز